• news
  • image

کچھ توجہ طلب مسائل اور سیاستدان

چیف جسٹس پاکستان اور چیف ایڈیٹر پاکستان ایس کے نیازی نے پانی کی قلت کے لئے ایک کانفرنس میں شرکت کی۔ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری نے بھی کہا کہ سب سے پہلے ایس کے نیازی نے اس مسئلے کی طرف اشارہ کیا۔ جناب ضیاء شاہد ایڈیٹر خبریں نے بھی بہت پہلے اپنے اخبار میں اس معاملے کی طرف اشارہ کیا تھا کہ اس سے پہلے کہ یہ کوئی بڑا قومی مسئلہ بن جائے ہمیں اور حکومت کو اس طرف توجہ دینا چاہئے۔
٭٭٭٭
حمزہ شہباز کو چاہئے کہ وہ سپیکر پنجاب اسمبلی کے لئے اور دوسرے سیاستدانوں کے لئے سختی سے بات نہ کیا کریں
٭٭٭٭
عمران خان کے لئے ن لیگ والے کہتے ہیں کہ انہیں حکومت کا تجربہ نہیں ہے۔ نواز شریف بھی جب پہلی بار حکمران ہوئے تھے تو انہیں کیا تجربہ تھا؟ صرف حکمران بن جانا ضروری ہوتا ہے۔تجربہ خودبخود آ جاتا ہے۔
٭٭٭٭
کسی نے سمجھایا تھا عمران کو کہ وہ مدینہ میں اپنی جوتیاں اُتار دیں۔ پہلے پاکستانی حکمرانوں نے یہ کیوں نہ سوچا اور کسی نے انہیں مشورہ نہیں دیا۔ یہ کیا بات ہے کہ عمران نے کبھی پاکستان میں پتلون نہیں پہنی جبکہ اس کی بہت ز ندگی انگلستان میں گزری ہے اور نواز شریف تو ’’پاکستان میڈ‘‘ حکمران تھے اور ان کی نوجوانی گوالمنڈی لاہور میں گزری ہے۔
٭٭٭٭
چودھری پرویز الٰہی اچھی خاندانی روایت کے کلچرڈ گھرانے کے آدمی ہیں۔ ان سے دوستی ہے۔ ایک بات چودھری صاحب سے کرنا تھی۔ بات کا تعلق ذاتی نہ تھا۔ مفاداتی تو کبھی ہوا ہی نہیں مگر ٹیلی فون والے ’’سیاستدان‘‘ سے بات نہ کرائی۔ جبکہ چودھری صاحب پہلے ٹیلی فون آپریٹر کے بغیر ہی بات کر لیتے تھے۔ سیاستدان تو سیاسی دوست ہوتے ہیں۔ چودھری صاحب واقعی دوست ہیں مگر وہ سیاستدان بھی ہیں؟
’’صدر‘‘ زرداری کبھی آپریٹر کے بغیر فون کر لیتے تھے۔ اب انہیں شاید میرا نمبر ہی یاد نہ ہو گا۔ میں نے انہیں کبھی سابق صدر نہیں لکھا۔ کسی صدر سے میرا تعلق کبھی نہیں رہا۔ صدر ممنون سے ذاتی تعلق تھا اور ہے ۔ میں ایک درویش آدمی ہوں۔ جب سیاستدان کچھ نہیں ہوتے تو خود رابطہ کرتے ہیں اور میں نے گریز نہیں کیا مگر میں نے کسی سے مفاداتی تعلق نہیں رکھا۔ مگر اب میں لاتعلقی اور بیزاری کے ویرانے میں ہوں۔ میں تو شروع سے بے نیاز اور بے غرض ہوں۔ مگر سیاستدان سمجھتے ہیں کہ ہم ہمیشہ اقتدار میں ہونگے، ورنہ اقتدار کے انتظار میں تو ہوں گے۔
٭٭٭٭
ہم صحافی اپوزیشن میں سیاستدانوں کے لئے غیبی امداد کی طرح ہوتے ہیں اور پھر ان کی طرف سے دیکھے جانے والی امداد کے منتظر اور محتاج رہتے ہیں۔ ان کی طرف سے فون بھی آتے ہیں اور ان کا ’’زمانہ‘‘ آئے تو ان کے فون آپریٹر بھی سیاستدان اور حکمران بن جاتے ہیں۔
چودھری پرویز الٰہی تو دوست ہیں مگر وہ سیاستدان بھی ہیں۔ مجھے تو ان کے علاوہ سیاست میں کوئی دوست نظر نہیں آیا۔ شاہد خاقان عباسی گفتگو کر رہے تھے کہ اُن سے بڑا دوست کوئی نہیں۔ میں انہیں نہیں جانتا اور بہت لوگ انہیں سیاستدان بھی نہیں مانتے۔ حیرت ہوئی تھی کہ چودھری نثار کے ہوتے ہوئے انہیں وزیراعظم بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ میں وزیراعظم نہیں ہوں، وزیراعظم نواز شریف ہیں۔ نواز شریف نے کیسے کیسے ’’اپنے‘‘ لوگ ہمارے حکمران وزیراعظم بنا دئیے۔ نواز شریف نے ہمیشہ یہی کیا۔ خاقان عباسی کہہ سکتے تھے کہ نواز شریف میرا لیڈر ہے لیڈر حکمران سے بڑا ہوتاہے۔
ان لوگوں کے لئے اپوزیشن میں ہم لوگ بہت نچلے ہوتے ہیں ورنہ ان کے ٹیلی فون آپریٹر زیادہ بڑے سیاستدان اور حکمران بن جاتے ہیں۔ ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا کہ تم نے کس کا فون مسترد کر دیا۔ اپوزیشن کے دنوں میں سیاستدانوں کے فون ہمیں آتے ہیں۔ حکومت کے دنوںمیں ہمارے فون سنے بھی نہیں جاتے۔
ہم صحافی اپوزیشن میں اُن کے لئے بہت اچھے ہوتے ہیں۔ ہماری عزت کی جاتی ہے۔ فون بھی سنا جاتا ہے مگراقتدار بہرحال اقدار کے خلاف ہوتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہمیشہ اقتدار میں رہیں گے۔ اپوزیشن ہو تو فون کرتے ہیں۔ ’’پوزیشن‘‘ ہو تو فون سنتے بھی نہیں۔
کیا حکمران اور انسان میں فرق ہے؟ جبکہ سیاستدان اور انسان میں کوئی فرق نہیں ہوتا مگر سیاستدان کو بہرحال خیال ہوتا ہے کہ میں نے حکمران بھی بننا ہے اور دوسرے عام لوگ بھی خوشی کے منتظر رہتے ہیں کہ مجھے انسان ہی سمجھا جائے۔ اس کے لئے سیاست میں نسبتاً اچھا نام عوام سے ہے ’’عام ‘‘ سے بڑا تعلق ہے۔ عام لوگ عوام کے لئے بولا جاتا ہے۔ مجھے یہ کبھی پتہ نہیں چلا کہ خاص لوگ کیا ہوتے ہیں۔
٭٭٭٭
سیاستدان جب اقتدار میں نہیں ہوتے تو بہت اچھے انداز میں ہوتے ہیں۔ دوستی کا انداز بھی اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب کچھ بن جاتے ہیں تو اُن کے ساتھ فون پر بات بھی مشکل ہو جاتی ہے۔ انہوں نے اپنے ٹیلی فون والے آپریٹر سے کبھی نہیں پوچھا کہ کس کس کا فون آیا، کتنے فون آئے۔
ٹیلی فون والے ان دنوں زیادہ صاحب ہوتے ہیں۔ ایک ہی جواب ان کا ہوتا ہے کہ صاحب فارغ ہوئے یا گھر پر آئے تو بات کروائیں گے اور بات کبھی نہیں کرائی گئی۔ شاید صاحب فارغ ہی نہیں ہوتے یا گھر پر آتے ہی نہیں یا چُھپ کرآتے ہیں۔ اپنے ’’زمانے‘‘ میں وہ انتہائی مغرور معروف اور سخت آدمی ہوتے ہیں۔ وہ اپنے ’’زمانے‘‘ میں کسی کے ساتھ بات ہی نہیں کرتے اور وہ گھر میں تو کبھی ہوتے بھی نہیں۔
٭٭٭٭

epaper

ای پیپر-دی نیشن