• news
  • image

آصف علی زرداری اور نوازشریف کی ملاقات کا امکان

نواز رضا
عام انتخابات کے انعقاد کے بعد ملکی سیاسی منظر یکسر تبدیل ہو گیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو مسند اقتدار پر بٹھا دیا گیا ہے جبکہ اپوزیشن بنچوں پر پاکستان مسلم لیگ ن ، پاکستان پیپلز پارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کو بیٹھنے پر مجبور کر دیا گیا پاکستان کی سیاسی تاریخ کی سب کی بڑی اپوزیشن کا المیہ یہ ہے جب سے نئی قومی اسمبلی وجود میں آئی ہے اپوزیشن جماعتوں کی شدید خواہش کے باوجود متحدہ اپوزیشن قائم نہیں ہو سکی ۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے خلاف نواز شریف دور میں درج کئے گئے مقدمات کی تحقیقات موجودہ دورِ حکومت میں کی جا رہی ہے ۔ نیب اور ایف آئی اے پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے سربراہ آصف علی زرداری کی اپوزیشن کی جانب قدم بڑھانے کی راہ میں حائل ہو رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سوا کم و بیش اپوزیشن کی تمام جماعتیں عام انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف بطور احتجاج اسمبلیوں کا حلف نہیں اٹھانا چاہتی تھیں لیکن یہ پیپلز پارٹی ہی تھی جس نے سب کو پارلیمنٹ میں جانے کی راہ دکھائی اور پاکستان الائنس فار ٹرانسپیرنٹ الیکشن کا قیام عمل میں لایا۔ بد قسمتی سے اس الائنس کے ایک دو ہی اجلاس ہو سکے۔اپوزیشن کے خلاف سر گرم عمل ’’قوتوں‘‘ نے متحدہ اپوزیشن کو قائم نہیں ہونے دیا۔ متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمان جو متحدہ اپوزیشن کے قیام میں پیش پیش ہیں، نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے چند روز قبل میاں نواز شریف ، آصف علی زرداری اور دیگر رہنمائوں سے ملاقاتیں کی ہیں۔ بالآخر انھوں نے آصف علی زرداری کو میاں نواز شریف سے ملاقات کرنے پر آمادہ کر لیا ہے لیکن یہ ان ملاقاتوں کا ہی نتیجہ ہے کہ آصف علی زرداری کے طرز عمل میں تبدیلی آئی ہے۔ انھوں نے اسلام آباد میں قیام کے دوران جہاں پیپلز لائرز فورم کے اجلاس پر شرکت کی۔ وہاں انھوں نے ایک پریس کانفرنس سے بھی خطاب کیا اور مولانا فضل الرحمان سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آصف علی زرداری نے جہاں تمام سیاسی جماعتوں کے مل بیٹھنے کا عندیہ دیا وہاں انھوں نے تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر ایک قرار داد منظور کرنے کی تجویز بھی پیش کی ہے۔ انھوں نے موجودہ حکومت کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ’’یہ حکومت چل سکتی ہے اور نہ ہی ملک چلا سکتی ہے ‘‘۔ اسی طرح انھوں نے راقم السطور کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’’میاں نواز شریف اور میرے درمیان فاصلوں کی اصل وجہ وہ’’ غم ‘‘ہیں جو انہوں نے اپنے دورِ حکومت میں مجھے دئیے ہیں ‘ ان میں سے ایک’’ غم ‘‘ ان کے دور میں درج کی گئی منی لانڈرنگ کی ایف آئی آر جو میں آج بھگت رہا ہوں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے درمیان ملاقات نہیں ہو سکتی اور فاصلے کم نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے ایک بار پھر عمران خان پر وزیر اعظم ’’سلیکٹ‘‘ کی پھبتی کسی ساور کہا کہ ’’جو گھر سے دولہا بن کر آئے ،ہیلی کاپٹر میں آئے اور جائے ہم اسے کیا کہیں؟‘‘۔ آصف علی زرداری بلاوجہ اسلام آباد کا دورہ نہیں کرتے۔ ان کی اسلام آباد آمد کے پیچھے ایک بڑا سیاسی ایجنڈا ہے۔ انھوں نے میاں نواز شریف سے ملاقات کا عندیہ دے کر حکومتی حلقوں کو یہ باور کرایا ہے کہ اگر ان کا جینا دوبھر کر دیا گیا تو وہ نواز شریف کی وکٹ پر کھیلنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ انھوں نے جہاں پارٹی رہنمائوں کے ساتھ مشاورت کی وہاں انھوں نے پس پردہ مختلف شخصیات سے ملاقاتیں بھی کی ہیں ۔ اگلے روز آصف علی زرداری نے جمیعت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے انکی رہائش گاہ پر ملاقات کی جبکہ انھوں نے پارٹی کے رہنمائوں سے حالیہ انتخاب کے تناظر میں بھی گفتگو کی ہے ۔ مولانا فضل الرحمان سے ہونے والی ملاقات میں اہم سیاسی فیصلے کئے گئے۔ آصف علی زرداری نے ایک روز قبل اپوزیشن کی جماعتوں کے مل بیٹھنے کا جو عندیہ دیا تھا‘ مولانا فضل الرحمان سے ہونے والی ملاقات میں اس ضمن میں پیش رفت ہوئی ہے۔ اس ملاقات کے بعد دونوں رہنمائوں نے مشترکہ پریس کانفرنس میں متحدہ حزب اختلاف کی جماعتوں پر مشتمل آل پارٹیز کانفرنس طلب کرنے کا اعلان کر دیا جس کی اہم بات یہ ہے کہ اس کانفرنس میں سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف بھی شریک ہوں گے۔ مولانا فضل الرحمان حکومت مخالف اے پی سی کے کنوینئر ہوں گے جس میں اپوزیشن کے مشترکہ لائحہ عمل پر مشاورت کی جائے گی۔ آل پارٹیز کانفرنس کا اہم نکتہ یہ ہے کہ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے درمیان ملاقات کا امکان ہے۔ دونوں اطراف سے برف پگھل رہی ہے۔ دونوں رہنمائوں نے ایک دوسرے سے ملاقات پر اتفاق رائے کیا ہے۔ اگرچہ پریس کانفرنس میں اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں موجودہ حکومت کی ناقص کارکردگی کے خلاف قرار داد منظور کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے جس سے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچ گئی ہے، کچھ حلقے اس تجویز کو تحریک عدم اعتماد سے تعبیر کر رہے ہیں جو کہ حکومت کے خلاف دو اڑھائی ماہ بعد پیش کرنا قدرے مشکل کام ہے۔ اس سلسلے میں جب آصف علی زرداری سے پوچھا گیا تو وہ طرح دے گئے تا ہم انھوں نے کہا کہ سردست موجودہ حکومت کے خلاف کوئی تحریک عدم اعتماد تو نہیں لائی جا رہی لیکن اس بارے میں کوئی حتمی بات بھی نہیں کہی جا سکتی۔ تاہم آصف علی زرداری نے واضح کیا کہ تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر تمام ’’دوستوں‘‘ سے بات کی جاسکتی ہے۔ اس طرح یہ کہہ کر انھوں نے تحریک عدم اعتماد کے آپشن کو یکسر مسترد نہیں کیا۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی سیٹ اپ میں جہاں وزیراعظم عمران خان ، میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری بڑے’’ سیاسی کھلاڑی‘‘ ہیں وہاں مولانا فضل الرحمان ان سب سے دو قدم آگے ہیں۔ یہ ان کے سیاسی جوڑ توڑ کا ہی نتیجہ ہے کہ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے درمیان’’ برف پگھلی‘‘ ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن