اپوزیشن کا بجٹ اجلاس کا بائیکاٹ آل پارٹیز کانفرنس اناونس
فرخ سعید خواجہ
نئی حکومتیں آئے ابھی نوے دن پورے نہیں ہوئے لیکن حکومت اور اپوزیشن میں تعلقات اس حد تک ناخوشگوارہیں کہ پنجاب میں اپوزیشن بجٹ اجلاس کا بائیکاٹ کئے ہوئے ہے، اسمبلی کی سیڑھیوں پر روزانہ دھرنا ہو رہا ہے اور اصلاح احوال کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ قومی اسمبلی میں میں بھی حکومت کے خلاف اپوزیشن کی متفقہ قرارداد لانے کی بات کی گئی ہے اور اس سلسلے میں آل پارٹیز کانفرنس بھی اناؤنس ہو چکی ہے۔ ادھر معاشی بحران کا شکار وزیراعظم عمران خان سعودی عرب سے امدادی پیکج لینے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نومبر میں آنے والے آئی ایم ایف کے وفد سے ہمارے حکمران ڈیل کریں گے یا آئی ایم ایف کو دھتکار دیں گے۔ اپوزیشن کے حکومت کے خلاف پیش قدمی کرنے کا ارادہ قرارداد لانے تک محدود رہتا ہے یا وہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے تک جا پہنچے گا۔ یہ ون ملین ڈالر کا سوال ہے۔ آئیے ان معاملات کا یکے بعد دیگرے جائزہ لیتے ہیں۔ پنجاب میں کہنے کو وزیر اعلی سردار عثمان بزدار کی حکومت ہے۔ ان کے مشیر اکرم چودھری اور اب وزیراعلیٰ کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گل میڈیا کے ذریعے صوبے کے عوام کو باور کروانے کے لئے پورا زور لگا رہے ہیں کہ صوبہ پنجاب میں واقعی سردار عثمان بزدار کی حکومت ہے۔ جب نئی حکومت آئی تو سردار عثمان بزدار کا نیا چہرہ ہونے کے باعث صوبے میں پہلے سے معروف گورنر پنجاب چودھری محمد سرور، سینئر وزیر پنجاب عبدالعلیم خان اور سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الہٰی کو میڈیا نے زیادہ لفٹ کروائی۔ تاہم ان تینوں بڑوں نے یک زبان ہو کر سردار عثمان بزدار کے روشن مستقبل کی نوید سنائی۔ ان کا کہنا تھا کہ ذرا وقت دیں سردار عثمان بزدار اپنی قابلیت اور اہلیت کا لوہا منوا لیں گے۔ گورنر چودھری محمد سرور نے سب سے پہلے خود کو محدود کیا۔ عبدالعلیم خان نے بھی ان کی پیروی کی اور اپنی وزارت پر توجہ مرکوز کر دی۔ البتہ سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الہٰی سیاسی محاذ پر مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے سب سے بڑے ناقد بن کر گرجتے برستے دکھائی دئیے۔ ان کا پنجاب اسمبلی کے احاطے میں میڈیا سے قائد حزب اختلاف میاں حمزہ شہباز اور وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان کی طرح رک کر گفتگو کرنا ہاؤس کے کسٹوڈین کے طور پر ان کی حیثیت کو متاثر کرنے لگا۔ 16اکتوبر کو بجٹ اجلاس میں جو کچھ ہوا اگرچہ بجٹ 2017-18ء کا ایکشن ری پلے تھا، صرف نشستیں تبدیل ہو چکی تھیں۔ پچھلے سال حکمران نشستوں پر بیٹھنے والے اب اپوزیشن بنچوں پر تھے جبکہ اس وقت کی اپوزیشن پی ٹی آئی اب حکمران جماعت ہے۔ اپوزیشن کے احتجاج کے دوران حکومتی ارکان بھی بعض وزراء کی قیادت میں ڈائس کے سامنے نبرد آزما رہے حتٰی کہ اسمبلی سیکرٹریٹ کے سٹاف کی میز پر چڑھ کر نعرے بازی کا مقابلہ کرنے میں دونوں طرف کے ارکان شامل تھے۔ جناب سپیکر ایوان ان آرڈر لانے کی کوشش کرتے رہے۔ وزیر خزانہ ہاشم جواں بخت نے بجٹ تقریر اور اپنا دیگر کام مکمل کیا تو ہنگامہ فرو ہو گیا ۔ سپیکر صاحب نے اجلاس جمعہ تک ملتوی کر دیا۔ اس کے بعد جناب سپیکرنے ا اپوزیشن کے چھ ارکان کے بجٹ اجلاس کے اختتامتک شرکت پر پابندی عائد کر دی۔ اگرچہ ان کا حکم پنجاب اسمبلی کے قواعد و ضوابط کار کے عین مطابق ہے لیکن یہ حکم نہ دیاجاتا تو اچھا تھا۔ مشرف دور میں سپیکر چودھری افضل ساہی نے اس قاعدے کا ایک سے زائد مرتبہ استعمال کیا۔ بقول جناب سپیکر چودھری پرویز الہٰی پچھلے سپیکر رانا محمد اقبال خان جنہوں نے پنجاب اسمبلی میں مسلسل د س سال سپیکر رہنے کا ریکارڈ قائم کیا انہوں نے بھی اس قاعدے کا استعمال کیا تھا۔ سو انہوں نے بھی کیا۔جناب سپیکر اور پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے درمیان اب میڈیا پر لفظی جنگ جاری ہے اس سے پنجاب اسمبلی کے ایوان کا ماحول بری طرح متاثر ہوا ہے۔ کاش اصلاح احوال کی کوئی س بیل نکال لی جائے وگرنہ ناخوشگوار واقعات جنم لیں گے۔ 1988-90ء اور 1993-96ء میں بھی پنجاب اسمبلی کا ماحول خاصا گرم رہا ہے لیکن فرق یہ ہے کہ 1988-90ء میں میاں منظور احمد خان وٹو جیسے ٹھنڈی طبیعت کے سپیکرتھے اور 1993-96 میں دانشور سیاستدان حنیف رامے سپیکر تھے۔ اب بھی ملک کے سینئر سیاستدان سپیر ہیں جو نہ صرف وزیراعلیٰ پنجاب رہے ہیں بلکہ دوسری مرتبہ سپیکر کے منصب پر فائز ہوئے ہیں۔افسوس موجودہ دور میں ان کی حثیت متنازع ہو گئی ہے۔ سپیکر چودھری پرویز الہٰی اور قائد حزب اختلاف میاں حمزہ شہباز دونوں کا امتحان ہے کہ پارلیمانی روایات کو مضبوط کرنے کے لئے ایک ایک قدم پیچھے ہٹیں اور جاری تنازع حل کر کے بڑے پن کا ثبوت دیںوگرنہ بڑھتی ہوئی تلخی نا خوشگوار واقعات کو جنم دے گی جس سے دونوں بڑوں کے کردار پر حرف آئے گا۔