• news
  • image

این آر او کی امیدیں بر نہیں آئیں گی

احمد کمال نظامی
قومی اسمبلی میںوزیر اعظم کے انتخاب کے بعد سے اپوزیشن کی دو بڑی پارٹیوں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان اب تک جو فاصلے نظر آتے تھے ، سیاسی رابطوں کے ذریعے یہ فاصلے کم سے کم کروانے کی کوشش تیز تر ہونے جا رہی ہے۔ اس سعی و کاوش کا نتیجہ کیا برآمد ہو گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ وقت ایک ایسے جلاد کی شکل میں ہاتھ میں برہنہ تلوار لئے کھڑا ہے کہ کبھی اس کے قدم محروم اقتدار اشرافیہ کی طرف اٹھتے ہیں اور کبھی وہ مسند اقتدار پر بیٹھی شخصیت کی طرف لپکتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کی تلوار کی زد میں کون آتا ہے۔ آئندہ سال جنوری کے پہلے عشرہ تک نقشہ سامنے آ جائے گا۔ آ جکل وزیراعظم عمران خان کے خلاف قرار داد لانے کی باتیں بڑے زوروشور سے سنائی دیتی ہیں۔ جمہوریت میں تحریک عدم اعتماد بھی کوئی شجر ممنوعہ نہیں ہے لہٰذا ماضی میں ایک دوسرے کو ’’ناسور‘‘ قرار دینے والے الیکشن کے بعد مشترکہ عارضہ میں مبتلا ہیں اور اس بیماری کا علاج حکیم صادق نے اپنی تشخیص سے یہ تجویز کیا ہے کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری کے مصداق اس نوآموز اقتدار کو جب تک راہ سے نہیں ہٹائے شفاء کی کوئی امید نہیں ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی حکومت ابھی ’ایام مشیری‘‘ میں ہے۔ یہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوتی ہے یا نہیں، اس کی آئندہ سطور میں بات کریں گے۔ وزیراعظم عمران خان کو ابھی یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ سیاسی حالات کو ہینڈل کرنے کے ساتھ ساتھ معاشی فرنٹ کے معاملات کیسے ہینڈل کئے جائیں۔ اس وقت عمران خان کی حکومت کے ریڈار پر اربوں بلکہ کھربوں روپے کی لوٹ مار کی واپسی کی کارروائی مرکوز نظر آ رہی ہے۔ جبکہ دوسری جانب اصل مسئلہ چار دہائیوں کی حکومت سے محرومی کا ہے اور یہی امر تحریک عدم اعتماد کی سوچ کا غماز ہے۔ اس صورت حال میں جب مفاہمتی سیاست کے چیمپئن آصف علی زرداری بھی کوئی بڑا خطرہ بھانپ رہے ہیں،اور مسلم لیگ(ن) کے قائد نیب زدہ ہو کر زیرعتاب ہیں۔ لہٰذا تیر اور شیر دونوں ’’بلے‘‘ کا شکار کرنے نکلے ہیں ، لیکن قربان جایئے مولانا فضل الرحمن کے جنہوں نے ان دونوں کا ایک دوسرے سے خوف کم کرتے ہوئے میدان میں مقابلہ کرنے کی ہمت پیدا کر دی ہے اور بقول شخصے حکومت واپس لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
میاں محمد نوازشریف، یوسف رضا گیلانی، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن میں ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ ہمیشہ کوشش کی کہ غیرجمہوری طاقتوں کو موقع نہ ملے۔ حکومت کے طور طریقے جمہوری نہیں، ملک ایسے چلتا نظر نہیں آ رہا۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ بات تحریک عدم اعتماد کی نہیں حکومت ہی جعلی ہے اور مینڈیٹ بھی جعلی ۔ تمام اپوزیشن پارٹیوں سے رابطے میں ہیں جلد ہی آل پارٹیز کانفرنس بلائیں گے۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ لگتا نہیں کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔ تحریک عدم اعتماد لانا اپوزیشن کا جمہوری حق ہے اس کے لئے وقت آنے پر فیصلہ کریں گے۔ حکومت کے پاس ٹیم ہے نہ کوئی وژن۔ عوام کو دکھائے گئے سبزباغ دھرے رہ گئے اور تمام امیدیں مایوسی میں تبدیل ہو گئی ہیں۔ غرض کہ تحریک عدم اعتماد کی دھمکی بھی دی جا رہی ہے اور خوف بھی پیدا کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں عمران خان حکومت واحد حکومت ہے جس کے خلاف ابتدائی ایام میں ہی قرار داد لانے کی تیاریاں نظر آ رہی ہیں۔غیرجانبدار سیاسی حلقوں کے خیال میں تحریک کی دھمکیوں کے پس پردہ عمران خان پر دباؤ بڑھانا اور پاکستان میں این آر او کی جو پختہ روایت چلی آ رہی ہے اس کی راہ ہموار کرنا ہے۔ اپوزیشن جانتی ہے کہ عمران خان کے پاس اسمبلی میں بڑی کمزور پوزیشن ہے اور اس کی حکومت چندارکان کی بدولت قائم ہے اور عمران خان کو مناسب وقت مل گیا تو وہ انہیں کھا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی عوام کے سامنے لوٹ مار کی اتنی کہانیاں لائی اور چلائی جا رہی ہیں کہ اب نقشہ ہی تبدیل ہو کر رہ گیا ہے اس کے باوجود جو منظر نظر آتا ہے کہ عمران خان کوئی این آر او پر آمادہ نہیں ہوں گے اور نہ سمجھوتہ کریں گے۔ اگر حالات نے مجبور کیا تو وہ این آر او کی بجائے نئے مینڈیٹ کا راستہ اختیار کریں گے جو پیپلزپارٹی کے لئے تو خسارے کا سودا ہو گا البتہ مسلم لیگ(ن) کے لئے حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج دیکھتے ہوئے یقینا امید افزا ہو گا۔ اس لئے قرار داد اگر تحریک عدم اعتماد میں تبدیل ہوجاتی ہے تو یہ دھمکی ابھی صرف دھمکی ہی ہو سکتی ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن