• news
  • image

پی سی بی چیئرمین کو ایم ڈی کے سہارے کی ضرورت!!!!!!

پاکستان کرکٹ بورڈ کو ایک ایم ڈی کی تلاش ہے اور اس بڑے کام کے لیے مناسب شخص کی تلاش کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔ یہ ایسی تلاش جس کے قانونی پہلووں پر بہت بات ہو سکتی ہے ہو سکتا ہے مستقبل میں اس کی آئینی و قانونی حیثیت کو چیلنج بھی کر دیا جائے۔کیونکہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے آئین میں میں ایسے کسی عہدے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔کیا صرف بورڈ آف گورنرز کو اعتماد میں لیکر آئین میں ترمیم کی جا سکتی ہے یا آئین میں بغیر ترمیم کیے کوئی اشتہار جاری کیا جا سکتا ہے اور ایسا نیا عہدہ تخلیق کر کے کسی کو ذمہ داری دی جا سکتی ہے۔ اس حوالے سے بحث کرکٹ کے حلقوں میں جاری ہے۔ بورڈ کی اس مہم جوئی کے حوالے سے کھیل سے تعلق رکھنے والے اہم افراد کا ملا جلا رجحان سامنے آیا ہے۔ایم ڈی کی تلاش میں نکلے بورڈ پر پی سی بی کے سابق چیئرمین خالد محمود نے پہلی مرتبہ احسان مانی پر تنقید کی ہے وہ کہتے ہیں کہ بورڈ میں پہلے ہی بہت زیادہ لوگ کام کر رہے ہیں بالخصوص اہم عہدوں پر موجود افراد کی موجودگی میں اس نئے عہدے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔یہ پیسے کا ضیاع ہے۔ چیئرمین کی موجودگی میں ایم ڈی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہر دور میں پی سی بی کا سربراہ تمام اہم معاملات کو دیکھتا اور فیصلے کرتا رہا ہے۔ ماضی میں بورڈ کے چیئرمین ذمہ داری قبول بھی کرتے رہے ہیں اور نبھاتے بھی رہے ہیں۔ بورڈ کا چیئرمین بااختیار ہوتا ہے اور بہت سے معاملات میں اسکی مداخلت سے بہتری آتی ہے۔ ٹیم کی کارکردگی خراب ہو یا سفارتی سطح ہر کوئی ناکامی ہو تو یہ ممکن نہیں کہ چیئرمین اپنے ماتحت پر ملبہ ڈال کر ایک طرف ہو جائے۔
خالد محمود کرکٹ کے انتظامی معاملات کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں انہیں کرکٹ کے کامیاب اور بڑے منتظم مرحوم اے ایچ کاردار کے ساتھ کام کرنے کا بھی موقع ملا ہے انکی رائے کو کرکٹ کے حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ احسان مانی کی طرف سے یہ موقف سامنے آیا تھا کہ وہ اپنے اختیارات کم کر رہے ہیں۔کیا وہ اختیارات کم کر رہے ہیں یا پھر مستقبل کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
سینئر سپورٹس اینکر مرزا اقبال بیگ بھی کہتے ہیں کہ ایم ڈی کے عہدے کی کوئی ضرورت نہیں ہے احسان مانی اختیارات میں کمی کے بجائے اپنا بوجھ دوسروں پر ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
احسان مانی نجم سیٹھی کے مستعفی ہونے کے بعد کرکٹ بورڈ کے چئیرمین بنے تھے وہ اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انہیں پاکستان سپر لیگ کی شکل میں ایک کامیاب ایونٹ ملا ہے جبکہ ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا سفر بھی شروع ہو چکا ہے بورڈ میں انہیں اچھے حالات ملے ہیں۔
پاکستان کی پہلی کرکٹ اینکر اور تجزیہ نگار عالیہ رشید کا کہنا ہے کہ احسان مانی کا اپنے اختیارات میں کمی کا فیصلہ اچھا ہے ماضی میں بورڈ کا سربراہ طاقت کا مرکز ہوا کرتا تھا اب بدلتی ہوئی صورتحال خوش آئند ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ اس پوزیشن پر آتا کون ہے۔کسی اہل اور قابل شخص کو نہ لایا گیا تو کوئی فائدہ نہیں ہے۔
سینئر سپورٹس جرنلسٹ سلیم خالق کہتے ہیں کہ" احسان مانی کی طرف سے اختیارات کی تقسیم اور کمی کا فیصلہ تو اچھا ہے لیکن اس عہدے کے لیے بورڈ کسی موزوں شخص کا انتخاب کرتا ہے یا نہیں یہ سب سے اہم ہے"۔
ویسے یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ اشتہار جاری ہونے سے پہلے ممکنہ افراد کے نام اخبارات میں آ چکے ہیں اور انہی میں سے اگر کوئی اس عہدے پر آیا تو شفافیت پر سوالات اٹھیں گے۔
ماہرین کرکٹ سے بات کرتے ہوئے ایک نیا پہلو یہ بھی سامنے آیا ہے کہ شاید بورڈ کے سربراہ اپنا بوجھ دوسروں پر ڈالنا چاہتے۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایم ڈی کیوں رکھنا چاہتے ہیں اگر مقصد اختیارات کی تقسیم ہے تو وہ چیف آپریٹنگ آفیسر کے اختیارات میں اضافہ کر دیں۔ اپنے ڈائریکٹرز کی ذمہ داریاں بڑھا دیں، بورڈ آف گورنرز کے اختیارات میں اضافہ کر دیں۔ڈائریکٹر انٹرنیشنل،ڈائریکٹر ڈومیسٹک، ڈائریکٹر اکیڈمیز، گیم ڈیویلپمنٹ کا کام بڑھا دیں۔ اپنے سی ایف او کی طاقت بڑھا دیں۔ اتنے بااختیار سی ایف او جو کہ بورڈ چیئرمین کو بھی جوابدہ نہیں ہوتا اسکی موجودگی میں ایم ڈی کی کیا ضرورت ہے۔ اتنے اعلی افسران کے ہوتے ہوئے ایک نئے افسر کا اضافہ کیا خزانے کے بوجھ میں اضافہ نہیں ہو گا ایک طرف وزیر اعظم عمران خان کفایت شعاری کا درس دے رہے ہیں تو دوسری طرف پی سی بی میں نئے افسران کی تلاش کے لیے کام شروع کر دیا گیا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ احسان مانی مکمل وقت کرکٹ بورڈ کو نہیں دے پاتے انکی دیگر مصروفیات اس قدر ہیں کہ انکے لیے ہفتے میں پانچ دن اور روزانہ چھ سات گھنٹے دفتر بیٹھنا ممکن نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ وہ "اپنا بندہ" لانا چاہتے ہیں جو انکے کام بھی کرے اور سب پر نظر بھی رکھے۔کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ وہ مختلف نشریاتی اداروں سے ماضی میں اپنے قریبی تعلق کی وجہ ممکنہ تنازعات سے بچنے کے لیے ایم ڈی کا سہارا ڈھونڈ رہے ہیں۔یا پھر ممکنہ احتسابی عمل سے بچنے کے لیے انہیں ایک نیا عہدہ تخلیق کرنا پڑ رہا ہے۔ ان سے پہلے نجم سیٹھی، شہریار خان اور ان سے بھی پہلے یہ سارے کام بورڈ کا سربراہ خود کرتا تھا تو اب اس کام کے لیے ایک نئے شخص کی ضرورت کیوں ہے؟؟؟؟؟

epaper

ای پیپر-دی نیشن