حکومتی اداروں کو نئی ترقیاتی سکیموں کی تیاری شروع کرنی چاہیے
حکومت پنجاب فیصل آباد شہر میں زیرالتوا ترقیاتی سکیمیں مکمل کرے۔۔۔
کینال روڈ کشمیر پل پر ڈیڑھ ارب روپے سے انڈرپاس کا منصوبہ فوری شروع کیا جائے
تحریروترتیب۔ احمد کمال نظامی
بیوروچیف نوائے وقت فیصل آباد
پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے کہا ہے کہ صوبے کے عوام کو سہولتیں فراہم کرنے کے لئے آخری حد تک جاؤں گا۔ عوام کو بہتر اور معیاری سہولتیں فراہم کرنا حکومت کی دمہ داری ہے اور پنجاب میں ہر کام میرٹ پر ہو گا۔ ہم نے نہ کوئی غلط کام کیا ہے اور نہ کسی کو کرنے دیں گے، ہر شہر کے عوام کے مسائل کو حل کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو حکومت کرتے ہوئے دو ماہ سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ ان دو مہینوں میں ماسوائے بیانات کے کوئی کام نظر نہیں آتا۔ جب کام ہی نہیں کریں گے تو غلط یا ناجائز کا فیصلہ کرنا مشکل ہے اور اپنے دوراقتدار کے ابتدائی دو ماہ میں بلدیاتی مسائل کے حوالہ سے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا ایک بیان بھی سامنے نہیں آیا بلکہ نئے بلدیاتی نظام کی بحث ہی نظر آتی ہے جبکہ سابق حکومت کے دور میں ضلعی حکومت نے جو ترقیاتی سکیموں کی منظوری ہی نہیں بلکہ ان پر کام بھی شروع ہو چکا تھا لیکن بعض خبروں کے مطابق ضلعی حکومتوں کے بہت سے ترقیاتی منصوبے التوا کا شکار ہیں جبکہ ان ترقیاتی منصوبوں کے لئے فنڈز بھی جاری ہوچکے ہیں پھر ان منصوبوں کے زیرالتوا رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ فیصل آباد میں سابق عہد حکومت میں شہر بھر میں کوئی 324ترقیاتی سکیموں کی منظوری دی۔ ان میں بہت سی ترقیاتی سکیمیں تو سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف کے عہد میں ہی مکمل ہو گئیں لیکن حکومت کی تبدیلی کے باعث بعض اطلاعات اور اخباری رپورٹس کے مطابق سابق عہد میں جس قدر ترقیاتی منصوبوںپر کام ہو رہا تھا وہ التوا کا شکار ہو چکے ہیں۔ یہ کس مصلحت کی بنا پر التوا کی بھینٹ چڑھا دیئے گئے ہیں۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے جبکہ جمہوری ممالک میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ جن ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری ہوتا ہے انہیں ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے کہ حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی تمام سکیمیں ختم کر دی جاتی ہیں۔ چاہے وہ کتنی ہی عوامی ہوں اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کی غرض سے تیار کی گئی ہوں۔ یہ غیرجمہوری رویہ اور رجحان ہے اس سے جمہوریت کی نفی ہوتی ہے۔ اس وقت صورت حال یوں ہے کہ پنجاب کے تمام بلدیاتی اداروں کی قیادت مسلم لیگ(ن) سے وابستہ بلدیاتی سیاست کرنے والوں کے ہاتھ میں ہے اور انہوں نے اپنی سیاسی وابستگی بھی تبدیل نہیں کی۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار تو تحریک انصاف کے لیڈر ہیں جبکہ پنجاب بھر میں بلدیاتی اداروں ی قیادت آج بھی مسلم لیگ(ن) کے پاس ہے۔ فیصل آباد میں سابق عہد حکومت میں کوئی 324ترقیاتی سکیمیں بنائیں۔ یہ خوش آئند اور خوش کن بات ہے کہ سابق دور 244سکیمیں مکمل ہو چکی ہیں اور یہ تمام سکیمیں حکومت کی تبدیلی سے قبل ہوئیں۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ وفاق اور صوبہ میں حکومت تبدیل ہوئی اور ضلعی حکومتیں اپنی جگہ موجود ہیں اور جب تک نئے بلدیاتی انتخابات نہیں ہوتے یہ حکومتیں اپنے فرائض سرانجام دیتی رہیں گی۔ موجودہ حکومت کون سا بلدیاتی نظام نافذ کرتی ہے اور اس نظام کے نفاذ کے بعد ہی بلدیاتی انتخابات ہوں گے جن کی شدید محالفت کی جا رہی ہے۔ فیصل آباد میں جو 80 سے زیادہ ترقیاتی سکیمیں التوا کا شکار ہو چکی ہیں ان میں کینال روڈ پر واقع کشمیر پل کا انڈرپاس، علامہ اقبال روڈ پر تھانہ کوتوالی کے قریب کارپارکنگ کا پلازہ، جھنگ روڈ اور حسیب شہید کالونی میں واقع چلڈرن ہسپتال سمیت شہر کی تعمیروترقی کے وہ منصوبے جو کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف نے منظور کئے تھے ان میں کینال روڈ کشمیر پل کے انڈرپاس کا ٹھیکہ تو دیا جا چکا ہے جبکہ کینال روڈ کی سروس روڈ جو کہ کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر کی جا رہی تھی اس کی سبک رفتار کچھوے کی چال کی طرح جاری ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ کینال سروس روڈ کا منصوبہ جگہ جگہ سے نامکمل ہونے کی وجہ سے ادھورا چھوڑ دیا گیا ہے اسی طرح جھنگ روڈ پر پاکستان کا سب سے بڑا چلڈرن ہسپتال نامکمل عمارت کی وجہ سے خراب ہو رہا ہے۔ کروڑوں روپے کی لاگت سے علامہ اقبال روڈ پر واقع میئر ہاؤس پر تعمیر ہونے والا نامکمل منصوبہ کروڑوں روپے کا ضیاع کرنے کے برابر ہے اور یہ ادھورے منصوبے اگر مکمل کرنے کی زحمت گوارا نہ کی گئی تو تقریباً فیصل آباد شہر میں جاری ان منصوبوں کا جو کہ نامکمل اور ادھورے چھوڑ دیئے گئے ہیں ایک اندازے کے مطابق دو ارب روپے سے زائد کا قومی خزانے کا نہ صرف نقصان ہو گا بلکہ بربادی ہو گی جو کہ یقینا نہ حکومت، نہ ملک، نہ صوبہ پنجاب اور نہ فیصل آباد کے لئے مناسب ہے۔ لہٰذا وزیراعلیٰ پنجاب کو چاہیے کہ وہ ان ادھورے اور نامکمل منصوبوں سمیت جتنے بھی منصوبے اس طرح تعطل کا شکار ہیں ان کی طرف توجہ دیں۔ سیاسی زاویہ نگاہ سے بات کریں تو گزشتہ چار دہائیوں سے پنجاب کے بلدیاتی ادارہ پر مسلم لیگ(ن) ہی بھاری تعداد میں کامیابی حاصل کرتی چلی آ رہی ہے جب یونین کونسلوں کے انتخابات غیرجماعتی بنیادوں پر ہوتے تھے تب بھی مسلم لیگ کے لوگ ہی فتح مند ہوتے اور پیپلزپارٹی اپنی شکست کے خوف سے بلدیاتی انتخابات سے دور ہی رہتی اور اگر کوئی جرات کرتا تو شکست اس کا مقدر ہوتی۔ اب بھی صورت حال میں تو کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی اور تحریک انصاف کی مہر چلنے کے باوجود مسلم لیگ(ن) سے وابستہ بلدیاتی سیاست دان ہی منظر پر نظر آتے ہیں۔ جب کوئی نیا بلدیاتی نظام منظرعام پر آئے گا تب کیا صورت حال ہو گی۔ لہٰذا مسلم لیگ(ن) ہی اپنی روایت برقرار رکھے گی جبکہ تحریک انصاف میں مقامی سطح پر اس قدر گروپ بندی ہے چونکہ مجوزہ بلدیاتی نظام کے تحت انتخابات چونکہ جماعتی بنیادوںپرہوں گے تو امیدواروں کی نامزدگی پر تحریک انصاف میں پھوٹ پڑنا ناگزیر ہے۔ لہٰذا فیصل آباد شہر کی جو 80 سے زیادہ ترقیاتی سکیمیں زیرالتوا ہیں جنہیں مقررہ وقت میں مکمل کرنے کی ہدایت جاری کی، نئے مالی سال میں بہت کم وقت رہ گیا ہے لہٰذا مصلحت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان زیرالتوا ترقیاتی سکیمیں بروقت مکمل کریں تاکہ نئی سکیمیں تیار کی جا سکیں۔!!