• news

آئی جی اسلام آباد کا تبادلہ وزیراعظم کے زبانی آرڈر پر ہوا : اٹارنی جنرل‘ زبردستی احکامات نہیں‘ ملک قانون کے مطابق چلے گا : چیف جسٹس

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+اپنے سٹاف رپورٹر سے) سپریم کورٹ نے آئی جی اسلام آباد کے تبادلہ کا حکومتی نوٹیفکیشن معطل قرار دیتے ہوئے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو حکم دیا ہے کہ وہ معاملہ پروزیراعظم سے ہدایت لیکر اپنا تحریری جواب جمع کرائیں، عدالت نے اپنے آرڈر میں قراردیا کہ آئی جی کے تبادلے کا حکم قانون کے مطابق نہیں کیونکہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کا تبادلے میں کوئی کردار نہیں بنتا، جائزہ لیا جائے گا تبادلہ بدنیتی پر مبنی تو نہیں، اگر بدنیتی ثابت ہوئی تو عدالت ذمہ داروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرے گی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ آئی جی کی تبدیلی کی سمری عدالت میں پیش کرتے ہوئے اٹارنی جنرل نے بتایاکہ وزیراعظم کے زبانی احکامات پر تبادلہ کیا گیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ تبادلے کی اصل وجہ کیا ہے؟ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ خود عدالت کو حقائق بتائیں۔ اس دوران عدالت میں سیکرٹری اسٹبلشمنٹ کی سانس پھول گئی۔ سیکرٹری اسٹبلشمنٹ کا کہنا تھا کہ آئی جی کے تبادلے کا ایشو کافی عرصے سے چل رہا ہے۔وزیراعظم آفس آئی جی کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھا۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ کیوں نہ آپکا بھی تبادلہ کر دیا جائے۔کیا آپ کو کھلا اختیار ہے جو چاہیں کریں ، وزیراعظم سے ہدایت لیکر جواب داخل کریں۔کیا یہ نیا پاکستان آپ بنا رہے ہیں؟چیف جسٹس نے کہاکہ تبادلے کا حکم معطل کر رہے ہیں، جسٹس اعجازالاحسن نے سیکرٹری سے کہاکہ آپ ریاست کے ملازم ہیں کسی حکومت کے نہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان اس طرح نہیں چلے گا، جس کا جو دل کرے اپنی مرضی چلائے، ایسا نہیں ہوگا،اب پاکستان قانون کے مطابق چلنا ہے زبردستی کے احکامات نہیں چلیں گے، وزیراعظم نے زبانی کہا اور تبادلہ کر دیا گیا، کیا حکومت اس طرح افسران کے تبادلے کرتی ہے۔ عثمان بزدار والا کیس دوہرایا جارہا ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ حکومت آخر پولیس کیساتھ کیا کر رہی ہے۔کیا غیر قانونی حکم نہ ماننے والے گھر جائیں گے ، چیف جسٹس نے کہاکہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کا تبادلے سے کیا تعلق ہے؟ وزیراعظم کو زبانی حکم دینے کی کیا جلدی تھی۔کیا حکومت زبانی احکامات پر چل رہی ہے۔ عدالت نے حکم میں قراردیا کہ آئی جی کے تبادلے کا حکم قانون کے مطابق نہیں کیونکہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کا تبادلے میں کوئی کردار نہیں بنتا، سپریم کورٹ میں سیکرٹری داخلہ نے اپنے ماتحت افسر کے تبادلے کے معاملے سے یکسر لاعلمی کا اظہار کرکے سب کو حیران کر دیا۔ وفاقی سیکرٹری داخلہ نے بتایا کہ انہیں آئی جی اسلام آباد کی تبدیلی کا علم ہے اور نہ ہی ان سے مشاورت کی گئی ہے، عدالت کے استفسار پر سیکرٹری داخلہ نے اس راز سے بھی پردہ اٹھایا کہ تبادلہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے کیا۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ عدالت میں پیش ہوئے اور عدالتی استفسار پر وہ راز بھی افشا کیا جس کی توقع تبدیلی سرکار سے ہی نہ تھی کہ میرٹ کا پرچار کرنے والے وزیراعظم نے زبانی حکم پر وفاقی پولیس کے سپہ سالار کو ہٹایا۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے لڑکھڑاتی آواز کے ساتھ عدالت کو بتایا کہ آئی جی کے تبادلہ کا معاملہ کافی عرصہ سے چل رہا ہے، وزیراعظم آفس آئی جی کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھا۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیوں نہ آپکا تبادلہ کردیا جائے؟ کیا آپ کو اختیار ہے جو چاہیں کریں اور کہا کہ کیا یہ نیا پاکستان آپ لوگ بنا رہے ہیں، مزید بولے کہ کیا حکومت اسی طرح افسران کے تبادلے کرتی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال اٹھایا کہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ غیر قانونی حکم نہ ماننے والے گھر جائینگے؟ وزیراعظم نے زبانی کہا اور تبادلہ کر دیا اور ساتھ ہی سپریم کورٹ نے آئی جی اسلام آباد کے تبادلے کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے کہا آئی جی کے تبادلہ کا حکم قانون کے مطابق نہیں اور وفاقی تبدیلی کارواں حکومت سے 31 اکتوبر تک جواب طلب کر لیا۔ عدالت نے سیکرٹری داخلہ اور اسٹیبلشمنٹ سے حقائق سے متعلق بیان حلفی بھی طلب کر لئے۔ عدالت نے کہا کہ جائزہ لیا جائے گا کہ تبادلہ کا حکم بدنیتی پر تو مبنی نہیں۔ کیس کی مزید سماعت بدھ تک ملتوی کر دی گئی۔آئی جی اسلام آباد جان محمد اس وقت ملائشےا مےں کورس مےں شرکت کےلئے گئے ہوئے ہےں جہاں 3 نومبر تک ان کا کورس ہے جبکہ جانے سے پہلے آئی جی کی حےثےت سے انہوں نے دو روز کی رخصت بھی لی تھی جو پانچ نومبر کو ختم ہوگی اور جس کے مطابق وہ6 نومبر کو ڈےوٹی پر واپس پہنچےں گے سپرےم کورٹ کے حکم کے بعد وفاقی پولےس نے اپنے آئی جی کی واپسی کا انتظار شروع کردےا ہے۔
آئی جی

چیف جسٹس

ای پیپر-دی نیشن