حدیبیہ کیس : سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف نیب کی نظرثانی اپیل خارج
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ آف پاکستان نے حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کیس کے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے خلاف نیب کی نظر ثانی اپیل مسترد کرتے ہوئے خارج کردی ہے۔ عدالت نے قرار دےا کہ فیصلہ کے خلاف نیب کی جانب سے کوئی ایسا کوئی نکتہ پیش نہیں کےا گےا جس پر نظرثانی کی جا سکے۔ پیر کو جسٹس میشر عالم کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل پر مشتمل تین رکنی بینچ نے دو گھنٹے کی طویل سماعت کے دوران عدالت نے متعدد بار غیر متعلقہ دلائل دینے پر نیب کے پراسیکیوٹر عمران الحق کی سرزنش کرتے ہوئے قرار دےا کہ نیب اپنے پاﺅں پر خود کلہاڑا مار رہا ہے۔ عدالت نے سوال اٹھایا کہ نیب کسی اور کا مقدمہ کیوں لڑرہا ہے؟، عدالتی فیصلے کے ان دو پیرا گرافس کو کیوں حذف کرانا چاہتا ہے جس میں پرویز مشرف اور ایمر جنسی کا ذکر آیا ہے؟، ان دو پیرا گرافس کے حذف ہونے سے نیب کے مقدمے پر کیا اثر پڑے گا؟۔ عدالت کا کہنا تھا کہ حدیبیہ پیپز ملز ریفرنس کے بارے اپیل زائد المیعاد کے تکنیکی نکتے سمیت بیس نکات پر خارج کی گئی۔ یہ حقیقت ہے کہ نیب نے اس وقت کیس کو لٹکایا جب پرویز مشرف ملک کے چیف ایگزیکٹو اور ان کا نمائندہ چیئرمین نیب تھا۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ پانامہ لیکس کیس میں قرار دیا گیا تھا کہ اگر حدیبیہ پیپر ملز کے بارے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل سپریم کورٹ آئے گی تو عدالت اس کا جائزہ لے گی، عدالت نے اپیل کا جائزہ لیا اور تکنیکی کے ساتھ میرٹ پر اسے مسترد کردیا۔ جسٹس مشیر عالم کا کہنا تھا کہ اپیل میں نیب کا موقف تھا کی ملزمان بااثر تھے اور انہوں نے کیس چلنے نہیں دیا لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ وہ جیل میں تھے اور جلا وطن ہوئے، جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اگر نیب کا موقف مان لیا جائے کہ بطور وعدہ معاف گواہ اسحاق ڈار کا بیان درست ہے تو پھر بھی اس سے نیب کے کیس پر اثر نہیں پڑے گا، نیب کے پاس کرپشن کے الزام میں ثبوت کیا ہیں؟، کیا غیر ملکی بینک اکاﺅنٹس کھولنا اور اس سے پیسے نکالنا جرم ہے؟ ایک آدمی کے خلاف ایک مقدمے میں تیس سال تک فرد جرم عائد نہیں کی گئی کیا یہ نیب کی صوابدید ہے؟۔ جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل کا کہنا تھا کہ نیب کو ملزم پر فرد جرم عائد کرنے سے کس نے روکا تھا، کس طرح مقدمے کو ایسے لٹکایا جاسکتا ہے، اٹھارہ سال سے چھری ملزم کے گلے پر رکھی ہوئی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ہمارے فیصلے میں کوئی غلطی ہوئی تو پہلا شخص ہوں گا جو درستگی کرے گا۔ جسٹس قاضی نے کہا کہ 1992کا الزام ہے اور 2000تک فردم جرم عائد نہیں ہوسکی پھر نیب والے عدالت سے باہر جاکر تقریریں کرتے ہیں۔ نیب کے بعد کوئی وزیر آکر تقریریں شروع کر دیتا ہے۔ دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ کیا نیب کے کہنے پر کوئی کرپٹ اور بے ایمان ہو جائے گا؟، پہلے ثابت تو کریں کہ کوئی جرم ہوا ہے، خدا کا واسطہ ہے ضابطہ فوجداری کیساتھ کھیل نہ کھیلیں، اسحاق ڈار کا بیان کسی اور کے خلاف استعمال نہیں ہو سکتا، اس کی قانونی حثیت دیگر بیانات کی طرح ہی ہے۔ کیا نیب ہر ملزم کو جلاوطن کر سکتا ہے؟ کیا ہر چور اور قاتل کہے گا کہ انہیں جلا وطن کیا جائے تو وہ جلا وطن ہوجائے گا؟، نیب کسی اور کی جنگ لڑ رہا ہے اور چاہتا ہے پاکستان کی تاریخ کو وائٹ واش کر دیا جائے، نیب نے فیصلے سے چند پیراگراف حذف کرنے کا کیوں کہا؟ مشرف کے ٹیک اوور والی بات سے نیب کو کیا تکلیف ہے؟، بعید ہے نیب مشرف کا وکیل نہیں ہے، یہ ایک انوکھا کیس ہے جس میں ملزم کی طرف سے ایک دن کی بھی تاخیر نہیں۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ مشرف کا جرم نیب سے کیوں جوڑا جارہا ہے؟ جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ اس وقت فوجی حکومت تھی لوگوں کو اپنی زندگیوں کے خطرات تھے، ایک جنرل حکومت دوسرا نیب کا سربراہ تھا، ملکی تاریخ پڑھنے میں نیب کو کیا مسئلہ ہے؟، کیا عدالت نے مشرف کے حوالے سے غلط لکھا ہے؟ الفاظ حذف کروانے کی استدعا مشرف نے نہیں کی۔ نیب پراسیکیوٹر نے پانامہ کیس کا حوالہ دیا تو جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ پانامہ کا یہاں تذکرہ نہ کریں، سمجھ نہیں آتی نیب کس کا کیس لڑ رہا ہے، کیا نیب آج آزاد ادارہ ہے یا نہیں ؟ نیب آزاد نہیں تو لکھ کر دے دے، کیونکہ آپ کے معروضات یہ ہیں کہ ملزمان وزیر اعظم اور وزیر اعلی بنے اور کیس کو آگے جانے نہیں دیا ،کیا نیب کسی کا وزیراعظم وزیراعلی بننے کے بعد تحقیقات نہیں کر سکتا؟۔
حدیبیہ کیس