• news
  • image

45 برس اور گجرات یونیورسٹی

اس کا یہ مطلب نہیں کہ گجرات یونیورسٹی کو 45 برس ہو گئے ہیں۔ اپنے آبائی شہر گجرات میں ایک یونیورسٹی بنائی گئی۔ ربعیہ رفیق نے ایک اچھی تحریر نوائے وقت میں اس حوالے سے لکھی ہے۔ گجرات چودھری پرویز الٰہی کی وجہ سے ایک ایسا شہر بنا ہے جس کی کوئی دوسری مثال کم از کم میرے پاس تو نہیں ہے۔
اپنے خاندان کے سیاسی معاملات کی وارث اور محافظ مریم نواز اپنی 45 ویں سالگرہ بڑی شان سے منا رہی ہے۔ کیا عورتیں بھی 45 ویں سالگرہ مناتی ہیں؟ وہ 18 ویں سالگرہ سے آگے نہیں بڑھتیں اور سمجھتی ہیں کہ انگریزی میں 18 روز 80 میں خاص فرق نہیں ہوتا۔ ایٹین اور ایٹی میں صرف ن کا فرق ہے اور نون مریم کے والد نواز شریف کی سیاسی جماعت ن لیگ ہے۔ میری کبھی نواز شریف سے ملاقات نہیں ہوئی۔
خیال ہے کہ آخرکار ن لیگ کی سربراہ مریم نواز ہونگی۔ میری خواہش ہے کہ وہ مریم کلثوم کے طور پر بھی معروف ہوں۔ کلثوم نوازایک بڑی خاتون تھیں۔ جب لوگ نواز شریف اورشریف فیملی کے لئے اچھے خیالات اور جذبات نہیں رکھتے تھے کلثوم بی بی کے لئے ایک بھی چھوٹی سیاسی بات باہرنہ آئی۔ مگرکلثوم کا مقصد صرف نواز شریف کی خدمت تھا اور وہ مریم نواز کو شریف فیملی کا اصل وارث سمجھتی تھیں۔ میری خوشی ہے کہ میں اُن کا کلاس فیلو ہوں اور وہ میرے ساتھ بہت تعلق رکھتی تھیں۔ ان کی بہت عزت میرے تڑپتے ہوئے دل میں ہے۔ خدا مریم کومریم کلثوم بھی بنائے ۔
چودھری پرویز الٰہی ایک کامیاب سیاستدان ہیں۔ وہ انسان بھی بہت اچھے ہیں۔سیاست میں ایسے لوگ کم کم ہوتے ہیں مگر وہ بہرحال ایک سیاستدان بھی ہیں۔ سیاستدان کی خوبیاں اور خامیاں اُن میں بھی موجود ہونگی۔ اب وہ سپیکر ہیں سپیکر بھی کامیاب سیاستدان ہوتا ہے۔ اُن سے رابطہ کبھی مشکل نہیں رہا۔ مگر آجکل کچھ مایوسی ہو رہی ہے۔ مایوسی اپنی ہی کوئی ذاتی خامی ہوتی ہے مگر تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔
بہرحال سیاست میں کوئی میرے لئے چودھری صاحب جیسا نہیں ہے۔ وہ ایک بہت اچھے اعلیٰ اور کامیاب انسان ہیں۔ میرے جیسے آدمی کے ساتھ بھی خاص شفقت کرتے ہیں۔ ان سے ملاقات اب نہیں ہوتی۔ کل برادرم اقبال چودھری نے بھی کہا کہ میری بات اُن سے کروا دیں گے مگر....؟
مجھے صدر ممنون اچھے لگتے ہیں۔وہ صدر تھے تو بھی ایک بھلے آدمی تھے۔ واقعی دوست تھے، وہ سیاست کی ضرورتوں سے اپنے آپ کو بالاتر رکھتے تھے۔ دوستی تو میری صدر زرداری سے بھی تھی ‘اب بھی ہے۔ مگر وہ ایک کامیاب سیاستدان بھی ہیں اور صدر سیاستدان ہو تو وہ قوم کا صدر نہیں ہوتا۔ اپنی پارٹی کا صدر ہوتا ہے۔ وہ پیپلز پارٹی کے صدر بھی نہیں ہیں وہ زرداری پارٹی کے صدر تھے۔ بہرحال وہ ایک کامیاب صدر تھے۔ میں انہیں ایوان صدر میں ملا تو صدر زرداری سے نہیں بلکہ زرداری صاحب سے ملا۔ اُن کے پاس برادرم ریاض شیخ کے بیٹے تھے۔ برادرم ریاض شیخ سے میرا تعلق زرداری صاحب کی وجہ سے تھا۔ اُن کا میرے ساتھ تعلق بھی صدر زرداری کی وجہ سے تھا۔ بہرحال وہ اپنے مقاصد میں کامیاب رہے اور میرا کوئی مقصد ہی نہ تھا۔ میں اُن کے لیے آج بھی دعا گو ہوں اور اُن کی دوستی کو سنبھال کر رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔
مجھے فقرکی ضرورت ہے اور کسی کو جو بھی فکر ہو‘ مجھے اُس سے کوئی غرض نہیں ہے۔ سُنا ہے آجکل زرداری صاحب لاہور میں ہیں۔ خدا میرے سب دوستوں کو سرخرو رکھے۔ میں ان کے لئے ہمیشہ حاضر ہوں۔
میں نے بات گجرات یونیورسٹی سے شروع کی تھی۔ مجھے وہاں جانے کا بڑا شوق ہے۔ شوق بڑھ جائے تو اس میں ہی اتنا مزا آنا شروع ہو جاتاہے کہ آدمی بہت کچھ بھول جاتا ہے۔ اب تو چودھری صاحب کے پاس جانا مشکل ہوتا ہے تو مجھے گجرات کون لے جائے گا۔ بہرحال وہاں گجرات یونیورسٹی کا قیام میرے لئے بہت حیرت اور خوشی کا باعث ہے۔ میںپنجاب یونیورسٹی میں شعبہ اطلاعات میں وزٹنگ پروفیسر ہوں تو یہ بھی بڑے اعزاز کی بات ہے۔ وہاں وائس چانسلر پروفیسر نیاز احمد ایک بہت بڑے جذبے کے آدمی ہیں۔ وہ بڑی تبدیلیاں لیکر آرہے ہیں۔اصل میں مجھے حمید نظامی چیپٹر کیلئے کام دیا گیا ہے۔ میں نے تین کتابیں دو برسوں میں شائع کیں۔ آجکل کام بند ہے۔ بالکل کئی کام بند ہیں۔
اللہ کرے گجرات یونیورسٹی بھی پنجاب یونیورسٹی کی طرح بلند مرتبہ اور شاندار ادارہ بن جائے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ہو کے رہے گا۔ یہ بڑی بات ہے کہ کوئی سیاستدان تعلیم کے فروغ اور شان کیلئے سوچے۔ چودھری صاحب کو گجرات کی شان کہا جاتا ہے۔ سیاستدان تو اس کیلئے اپنے شہروں میں کچھ اور کام کرتے ہیں۔ چودھری صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں۔ انہیں اب پنجاب یونیورسٹی کا چکر بھی لگانا چاہئے۔ یہ گجرات یونیورسٹی کیلئے ان کے منصوبوںمیں کام آئے گا۔ آجکل پنجاب یونیورسٹی صحیح معنوں میں ایک عالمی ادارے میں تبدیل ہورہی ہے۔ہم وائس چانسلر پروفیسر نیاز احمد کے شکرگزار ہیں۔
شاہدقادر ڈائریکٹر شکایات سیل ہیں جو ایک اچھے چیف منسٹر چودھری پرویزالٰہی نے بنوایا تھا۔ شاہد قادر بانگ درا کے دیپاچہ نگار سر عبدالقادر کے پڑپوتے ہیں۔ نوائے وقت کی فرزانہ چودھری نے بہت خوبصورت انٹرویو شاہدقادر کا کیا ہے۔ شاہد قادر نے بتایا کہ سر عبدالقادر اور سر علامہ اقبال کی دوستی مثالی تھی۔ علامہ اقبال اور عبدالقادر کو سر کا خطاب بھی ایک ساتھ ملا تھا۔ مجیب شامی نے اس حوالے سے شاہد قادر کی بڑی تعریف کی ہے۔ شاہد قادر نے اپنے انٹرویو میں حضرت علیؓ کا ایک قول بیان کیا ہے کہ کردار کی دو ہی منزلیں ہیں۔ دل میں اتر جانا یا دل سے اتر جانا۔ شاہد قادر دوستوں کی مدد کرنے اور خدمت کرنے کو بڑا عمل سمجھتے ہیں۔ وہ دوستوں کے حلقے میں بہت پسندیدہ ہیں۔
برادرم تنویر ظہور بہت کام کرنے والے آدمی ہیں۔ انہوں نے خاموشی سے علمی و ادبی حوالے سے بہت خدمت کی ہے۔ وہ ماہنامہ ”سانجھاں“ کے ایڈیٹر ہیں۔ بڑی مدت سے خاموشی کے ساتھ یہ شاندار رسالہ شائع کرتے ہیں۔ ڈاکٹر خالد جاوید جان ان کے ساتھ دل وجان سے تعاون کرتے ہیں۔ تنویر بھی ڈاکٹر صاحب کو بڑا مقام دیتے ہیں۔ ”سانجھاں“ علم و ادب کی ایک بڑی سانجھ کا کردار ادا کرتا ہے۔ تازہ شمارے میں ایک بڑے کالم نگار‘ ادیب اور شاعر نوائے وقت کے ایڈیٹر ایڈیٹورل سعید آسی کے بارے میں اور ان کے شاندار کالموں کی کتاب ”تیری بکل دے وچ چور“ کے بارے میں ایک مضمون تنویر ظہور نے لکھا ہے۔ جو خصوصی طورپر پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ شمارے میں معروف شاعر آسناتھ کنول کی غزل بھی شامل ہے جو بہت خوبصورت اور شاندار ہے۔ آسناتھ کا شعر ملاحظہ ہو
دل اختیار میں بے اختیار کتنا تھا
تری وفا پہ ہمیں اعتبار کتنا تھا

epaper

ای پیپر-دی نیشن