ذات پات کی بنیاد پر انسان کا بٹوارہ !(2)
جب ہم مختلف علاقوں میں جاتے ہیں تو ہر جگہ ہی ہمیں یہ قبائل، ذات پات اور نسل کا نظام نظر آتا ہے مگر جس طرح سے اس کا رائج پاک و ہند میں نظر آتا ہے اس طرح یہ ایک معاشرتی بیماری بن گیا ہے۔مشہور مورخ غوث انصاری نے برصغیرکے مسلمانوں کو 3 بڑے درجوں میں تقسیم کیا۔ اشراف یعنی وہ مسلمان جو بیرونی حملہ آواروں کے ساتھ آئے اور ہندوستان میں ہی رہائش پذیر ہو گئے مثلاً مغل، پٹھان، سیّد اور شیخ دوسرے درجے کے وہ مسلمان جو ہندوؤں کی بڑی ذاتوں سے مسلمان ہوئے تھے مثلاً راجپوت، کسان،اور دکاندار وغیرہ (یہ کشتری کہلاتے تھے)۔تیسرے درجے کے وہ مسلمان جو ہندوؤں کی چھوٹی جاتیوں سے آئے تھے۔ برصغیر میں اس طبقے کے مسلما ن زیادہ ہیں، یعنی ہنر پیشہ، مثلاً حجام، موچی، قصائی،تیلی، جولاھے، کمہار، لوہار، کنجڑے اور دھوبی وغیرہ، آج کے بھارت میں ابھی بھی مسلمانوں کی زیادہ تعداد ایسے ہی ہنر مندوں کی ہے۔ یہ کم پڑھے لکھے مسلمان ہنر مند، بہترین کشیدہ کار، پچی کار، قالین باف ، زیور ساز، جفت ساز، جلد ساز اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دنیاکے بہترین ہیرا تراش ہیں۔ آج سے 20 سال پہلے تک بیلجیم میں یہودی قوم کے افراد بہترین ہیرہ تراش ہوتے تھے لیکن اَب انڈین کٹ پسند کیا جاتا ہے،جو جے پوری مسلمانوں کی ایجاد ہے۔اِن مسلمان ہنر مندوں کی مصنوعات ہندو سرمایہ دار ایکسپورٹ کرتے ہیں اور مسلمان ہنر مند ویسے ہی غریب رہتا ہے۔ میرا یہ بیان حقیقت پر مبنی ہے۔ ملازمت کے دوران مجھے ہندوستان کے مختلف شہروں میں جانے کا اِتفاق ہوا۔ الٰہ بادی برتن ساز،علی گڑھ کے تالہ ساز، جے پور کے ہیرا تراش، کانپور اور مدراس کے چمڑہ ساز،دہلی اور لکھنو کے تارکش اور کشیدہ کار۔ ہندوستان کی سمال انڈسٹری کا 20 ارب ڈالر مسلمان ہنر مند ہی کما کر دیتے ہیں، لیکن اس کا فائدہ ہندہ ایکسپورٹرز لے جاتے ہیں، لیکن یہ مسلمان کاریگر اْسی طرح Ghettos میں رہتے ہیں۔ہندوستان کے مسلمانوں کی ایک دلچسپ اور مخصوص ذات وجود میں آئی جو نہ تو ہندوؤں میں کبھی تھی اور نہ ہی باہر سے آنے والے مسلمانوں میں موجود تھی۔ مسلمانوں کی یہ ذات بھی ایک مخصوص پیشہ سے منسلک ہونے کی وجہ سے وجود میں آئی،چونکہ قرآنِ مجید میں شراب تیار کرنا اور فروخت کرنا بھی ممنوع ہے، اِس لئے ہندی مسلمانوں کا وہ طبقہ جو شراب فروخت کرتا تھا اْس کو مسلمانوں کی ثقافت میں ’’کلال‘‘کہا جاتا تھا۔کلال ذات تاجر پیشہ ہونے کے باوجود،مسلمانوں میں عزت و احترام سے نہیں دیکھی جاتی تھی۔یہ طبقہ عام مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ خوشحال ہوتا تھا۔رہن سہن بھی اعلیٰ ہوتا تھا،لیکن اس کے باوجود چھوٹے پیشوں والے مسلمان کلالوں سے رشتہ داری نہیں کرتے تھے۔ انگریز کے ہندوستان میں آنے کے بعد شراب کا کاروبار پارسیوں اور اینگلو اِنڈین نے شروع کر دیا۔ کلال آہستہ آہستہ ختم ہو گئے یا دوسرے پیشوں میں چلے گئے۔
اسی طرح سید اور چودھری اور وہ اقوام جو اپنے آپ کو مافوق الفطرت سمجھنے لگ گئیں ہیں سید جن کو آل علی ہونے پر فخر ہے۔اس طرح کی بہت ساری ذاتیں ہیں۔اسی طرح طبقاتی نا ہمواری بھی موجود ہے، بے شک یہ تقسیم معاشرے کو مختلف طبقوں میں تقسیم کر دیتی ہے جس میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو گیا ہے اور یہ اونچ نیچ کا چکر اتنا زیادہ ہے گویا دیوتا اور اس کے غلام زمین پر ہوں۔معاشرتی بیماری بھی ہے یہ حسب نسب اور ذات پات کی بیماری اتنی پرانی اور جڑیں رکھتی ہے کہ علم اور آزادی کے سوا اس سے نجات ممکن نہیں اور زندگی ایک خاندان تک بہتر گزار لینا بھی بڑی بات ہے کہ انسان اپنے اباواجداد کی تعریف کے قصیدے پڑھتا رہے جو غفلت کے سواکچھ نہیں اور اپنی زندگی کو دوذخ بنانے کے مترادف ہے۔اگر ہم شجرہ نسب کی بات کریں تو یہ درخت کی ماند ، نسل کو ظاہر کرنے کا طریقہ ہے جو عرب میں رائج تھا جنہوں نے اپنے گھوڑوں ، اونٹوں تک کے شجر نسب تک ازبر کر رکھے تھے۔ اس کے علاوہ اسلام میں موجود تمام جنگیں انہیں شجروں کے درمیان رہیں جیسے بنو ہاشم، بنو امیہ ، بنو عباس ، بنو زبیر اور بہت سارے ایسے قبائل جنہوں نے جنگ کے سواکچھ نہیں کیا۔پیشہ یا ذلت کی بنیاد پر تقسیم بھی اس خطے میں عام رہی ہے،وہ عموماً پیشہ وارانہ ہے نہ کہ نیچ اور کمتر ہونے کی بنیاد پر۔ اور ہمارے معاشرے میں موچی، کمہار، لوہار اور ترکھان، تیلی، نائی وہ عظیم پیشے ہیں جو ہم سب ہی ہیں۔ ایک سید بھی موچی ہو سکتا ہے اور چودھری کمہار۔
الغرض اسلام ان سب ذات پات کو یکسر مسترد کرتا ہے۔ اسلام دین فطرت ہے۔ اسلام نے نا صرف فطری تقاضوں کی تکمیل کی ہے بلکہ غیر فطری عناصر کا بھی سدباب کیا ہے۔ نسلی و قومی امتیاز کا اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ کسی کو بھی اپنی ذات کو،خاندان کو، نسل کودوسری نسل سے فوقیت نہیں دینی چاہیے۔ اسلام کے ساتھ ساتھ سائنس بھی ذات پات کی نفی کرتی ہے۔ اور محققین بتاتے ہیں کہ انسان کی عادات اُس کی ذات پات سے نہیں بلکہ ڈی این اے سے منسوب ہوتی ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ انسانوں نے تقریباً 70پشتیں قبل ذا ت پات میں بٹ کر میل جول روک دیا تھا۔اور اس خطے (برصغیر) میں موجود آبادی بنیادی طور پر پانچ قسم کی قدیم آبادیوں سے وجود میں آئی ہے۔ یہ قدیم آبادیاں ہزاروں برس قبل میل جول رکھتی تھیں۔ پس بعد از اں قدیم آبادیوں کے انسان نے خود کو اپنے قبائل تک محدود کر لیا اور ذاتوں میں بٹنے لگے اس سلسلے کے شروع ہونے کے بعد عوام نے آپس کی شادیاں روک دیں۔
خیر اس حوالے سے تو اسلامی محققین نے بھی بہت کچھ لکھا ہے مثلاََمفتی محمد شفیع عثمانی لکھتے ہیں کہ دجال پر ایمان لانے والے اکثر جولاہے ہوں گے۔ مولانا اشرف تھانوی کی مشہور زمانہ کتاب بہشتی زیورمیں ایک باب ’’کون کون لوگ اپنے میل اور برابر کے ہیں اور کون نہیں‘‘کے نام سے ہے۔ مولانا حسین احمد مدنی نے اپنی خود نوشت میں لکھا کہ ’’شریف خاندانوں کا فرض اکمل یہ تھا کہ وہ میدان علم وعمل میں بہت زیادہ جدوجہد کریں تاکہ ان کا ذاتی جوہر زنگ کھا کر فنا نہ ہو جائے‘‘۔ تبلیغی جماعت کے اہم راہنما اور فضائل اعمال کے مصنف مولانا محمد زکریا ذات پات کے قائل تھے۔ جب تبلیغی جماعت کے امیر ، مولانا محمد یوسف کے انتقال کے بعد مولانا رحمت اللہ کو امیر بنایا گیا تو انکی ذات(روغن گر تیلی) کے باعث انہیں جماعت کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور مولانا زکریا کے ایک ’’خواب‘‘ کی بدولت انہیں امامت کا عہدہ چھوڑنا پڑا۔ذات پات کی مخالفت کرنے والے ابواعلیٰ مودودی خود سید گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور 1932ء میں انہوں نے لکھا کہ ’’میراتعلق ایسے خاندان سے ہے جو تیرہ سو سال سے راہنمائی، مذہبی اور صوفیانہ تعلیم کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے۔‘‘ دیگر اقوام کے متعلق اس قدر تعصب ہندوستان کے علاوہ تاریخ میں شاید صرف نازی جرمنی میں دیکھنے کو ملا۔
لہٰذااسلام ہو ، سائنس ہو یا معاشرتی پہلو ان میں تقسیم کا بنیادی سبب ذات پات ہے جسے ہم تعلیم کو فروغ دے کر ختم کر سکتے ہیں۔ آج حد تو یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی ذات پات کی بنیاد پر ہم لوگ بیٹیوں کے رشتے ٹھکرا دیتے ہیں۔ حالانکہ انسان اشرف المخلوقات ہے جو ہر عیب سے پاک ہونا چاہیے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد پیدا کرے اور ایسا اُخوت کا رشتہ قائم کرے جیسا مدینۃ الرسول میں قائم ہوا تھا(آمین)