پی پی کے گرد نیب کا گھیرا تنگ، زرداری، شہباز خوشگوار انداز پر لوگ حیرت زدہ
لاہور (سید شعیب الدین سے) عدالتی فیصلوں اور 25 جولائی کے انتخابات کے بعد اقتدار اعلیٰ سے ہاتھ دھو بیٹھنے والی مسلم لیگ (ن) ابھی نیب کے شکنجے سے نکل نہیں پائی تھی کہ پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت بھی ایف آئی اے اور نیب کے ہتھے چڑھ گئی ہے اور ان کے گرد گھیرا مسلسل تنگ ہو رہا ہے شریف برادران اور آصف زرداری جو کل تک ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روا دار نہیں تھے اب ایک بار پھر ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر سیاست کے کارزار سے بخیریت گزر جانے کی جدوجہد کا آغاز کر رہے ہیں پارلیمنٹ میں آصف علی زرداری جس انداز میں شہباز شریف کے ساتھ خوشگوار انداز میں گفتگو کرتے ایوان میں داخل ہوئے اس نے ایوان کے اندر موجود ارکان تو دور کی بات پاکستان بھر میں ٹی وی میں دکھائے گئے ان مناظر پر لوگوں نے حیرت زدہ کر دیا لوگ یہ کہتے رہے کیا یہ وہی دو لیڈر ہیں جو ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں تھے۔ یہ وہی آصف زرداری تھے جو دو دن پہلے لاہور میں قیام کے باوجود میاں نوا زشریف سے ملاقات نہیں کر پائے تھے۔ تاہم مولانا فضل الرحمن کی کوششوں سے برف پگھلنے کا آغاز ہو گیا ہے۔ حالات کی مجبوری نے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت اور دیگر رہنماؤں کو ایک دوسرے کے خلاف شعلہ بیانی اور ہرزہ سرائی سے روک دیا ہے کچھ حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے بلاول زرداری کو یہ احساس ہو گیا ہے ایف آئی اے اور نیب سے ان کے والد اور دیگر بھارتی رہنماؤں کی جان بچانے کیلئے صرف سندھ کارڈ کھیلنا کافی نہیں بلکہ پارلیمنٹ اور باہر موجود دیگر سیاسی قوتوں کی حمایت کا حصول از حد ضروری ہے اب آصف زرداری اور نواز شریف کی ون ٹو ون ملاقات کا سب کو انتظار ہے جو رواں ہفتے کسی وقت بھی ممکن ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان دوریاں کم ہونے کا سلسلہ پیپلز پارٹی کی طرف سے نیب اور اعلی عدلیہ کے اختیارات میں کمی کی اس مہم کے بعد شروع ہوا جو پیپلز پارٹی نے بذریعہ پیپلز لائرز فورم شروع کی ہے یہ تقریب لاہور میں منعقد کی گئی تھی تقریب کی قرارداد میں پیپلز پارٹی کی اعلیٰ نے جو مطالبے وکلاء کی زبان سے کروائے اس میں سپریم کورٹ کے سوموٹو نوٹسز اور عدالت عظمیٰ کے فرسٹ ہینڈ ڈائریکٹ انٹرٹینمنٹ کیسز کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق دیئے جانے کیلئے آئینی ترامیم اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کے عمل کو صاف شفاف بنانے اور ’’میرٹ، قابلیت‘‘ کو معیار بنانے، نئی آئینی عدالت کے قیام کے علاوہ نیب ایف آئی اے اور دیگر ایجنسیز کی کارروائیوں پر تحفظات کا اظہار کیا گیا پیپلز پارٹی کی طرف سے اعلیٰ ترین عدلیہ کے اختیارات میں ’’کمی‘‘ اور نیب کی کارروائیاں روکنے کا مطالبہ یقیناً مسلم لیگ ن کے دل کی آواز بھی ہے۔ بھٹو اور اینٹی بھٹو کے نام پر 35 برسوں سے سیاست، سیاست کھیلنے والی دونوں جماعتوں کے درمیان محبت کی نئی پینگ کتنی اونچی جاتی ہے۔ اس کا پتہ بھی جلد لگ جائے گا۔