سپریم کورٹ کمرہ عدالت نمبر ایک سے
(محمد اعظم گِل )سپریم کورٹ میں آئی جی اسلام آباد تبادلہ ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے تین دفعہ آئین کی کتاب کو لہراتے ہوئے اٹارنی جنرل کو وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی یاد کرا دی۔ کمرہ عدالت وکلاءصحافیوں اینکر پرسنز اور سائلین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ اٹارنی جنرل انور منصور سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی کمرہ عدالت میں موجودگی کا استفسار کیا اور جس پر اٹارنی جنرل نے وزیر اطلاعات کی عدم موجودگی کا بتایا تو چیف جسٹس ثاقب نثار بولے کہ وزیر اطلاعات کو بلائیں تاکہ ان سے پوچھیں ذو معنی بات کرنے کا مقصد کیا تھا اور انہوں نے کس کو ٹویٹ کیا؟ ایسے وزیر کو میں توہین عدالت میں اندر نا دے دوں، اٹارنی جنرل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ بلائیں دونوں وزراءکو یہ بالواسطہ کورٹ کی توہین کرنے والے کون ہوتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں جو دل میں آیا وہ کیسے کرتے ہیں، مزید کہا کہ دل کی باتیں اب ختم ہوگئیں، اسی دوران جب فواد چوہدری کے آئی جی اسلام آباد کے تبادلے کے حوالے سے دیئے بیان پہ چیف جسٹس ثاقب نثار ریمارکس دے رہے تھے تو وزیر اطلاعات کے بھائی فیصل چوہدری ایڈووکیٹ کمرہ عدالت سے باہر جانے لگے تو چیف جسٹس نے فیصل چوہدری ایڈووکیٹ کو واپس بلا لیا۔ وزیر اطلاعات کے بھائی وضاحت دینے لگے تو چیف جسٹس نے انہیں پہلے وضاحت دینے سے روکا بعد ازاں جب فیصل چوہدری کو وضاحت کا موقع ملا تو یہ فواد چوہدری کے سپریم کورٹ میں آنے سے قبل ہی وزیر اطلاعات کے بھائی عدالت کا ماحول ٹھنڈا کرچکے تھے۔ فواد چوہدری کمرہ عدالت میں کافی مطمئن انداز میں داخل ہوئے۔ وزیر اطلاعات روسٹرم پر آئے اور معزز بنچ کو السلام علیکم کہا چیف جسٹس نے فواد چوہدری کو یار کہہ کر مخاطب کیا کہ یار آپ سے یہ امید نہیں تھی، وزیر اطلاعات کے وضاحت تو عدالت نے قبول کرلی جب فواد چوہدری نے کہا کہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ عدلیہ کے خلاف کوئی بات کریں اس پر عدالت میں قہقہہ لگا، اعظم سواتی کے کمرہ عدالت میں آتے ہی اٹارنی جنرل اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل کمرہ عدالت سے چلے گئے تھے جب تمام کیسسز سنے جا چکے تو اعظم سواتی روسٹرم پر آئے اور آئی جی اسلام آباد کو بطور شہری کال کرنے کا کہا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال اٹھایا کہ کتنے عام شہری ہیں جو آئی جی کا تبادلہ کراسکتے ہیں؟ چیف جسٹس نے 62 ون ایف کا لگانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے 62 ون ایف کو آئین کی کتاب میں دبا کر نہیں رکھنا۔
کمرہ عدالت