آئی جی تبادلہ کیس : وزیر اطلاعات نے طنزیہ بیان کیوں دیا‘ چیف جسٹس‘ اعظم سواتی بچوں سے اثاثوں کی تفصیلات طلب‘ امریکہ جانے سے روک دیا
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے آئی جی اسلام آباد کے تبادلے سے متعلق ازخود نوٹس میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی غیر مشروط معافی پران کے بیان کی حد تک معاملہ نمٹا دیا ہے جبکہ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی کے معاملے میں ڈی جی ایف آئی اے کی سربراہی میں جے آئی ٹی کی تشکیل کا عندیہ دے دےا گےا۔ عدالت نے پولیس اور جیل حکام سے تمام ریکارڈ طلب کرتے ہوئے سماعت کل جمعہ تک ملتوی کردی ہے، عدالت نے پولیس حکام کو متاثرہ خاندان کو عدالت پیش کرنے کا حکم دےا ہے۔ عدالت نے اعظم سواتی کی ایما پر گرفتار خواتین اور بارہ سالہ کمسن بچے کو پیش کرنے کا حکم دیا ہے اورپولیس کو ہدایت کی ہے کہ اگر متاثرہ خاندان کی طرف سے درخواست آئے تو معصوم افراد پر تشدد کے الزام میں اعظم سواتی اور دیگر کے خلاف پرچہ درج کیا جائے۔ عدالت نے آئی جی اسلام آباد کے تبادلے کے بارے اٹارنی جنرل کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے معاملے پر حکومت سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔ اٹارنی جنرل کے جواب پرچیف جسٹس نے کہا کہ یہ طوطا مینا کی کہانی ہے زبانی احکامات کچھ نہیں ہوتے، ایگزیکٹو کو لامحدو اختےارات حاصل نہیں آئین کے تحت اختےارات حاصل ہیں، خلاف قانون حکم کو عدالت ری وزٹ کرسکتی ہے، اسی آئین کے تحت عدالت نے ایک وزیراعظم کو گھر بھیج دےا، عدالت منتخب پارلیمنٹ کی عزت کرتی ہے جبکہ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ آئی جی کے خلاف الزام کیا تھا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا حکومت کا سارا کاروبار وٹس ایپ پر چلتا ہے؟،ابھی ہتھکڑی لگادو، ابھی ہتھکڑی کھول دو یہ قانون کی حکمرانی نہیں، ملک میں کس کی حکومت ہے ہمیں اس سے سروکار نہیں آئین وقانون کی حکمرانی قائم ہونی چاہئے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریما رکس دئیے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق کہاں ہوتا ہے یہ ہم نے دیکھنا ہے، اس کیس میں ہم آئندہ کے لئے لائن طے کریں گے کہ ملک کو کیسے چلنا ہے۔چیف جسٹس نے آئین لہراتے ہوئے فواد چوہدری کو کہا کہ آئین پڑھ لےں اس آئین نے ہمیں اختیار دیا ہے اور اس اختیار کے تحت ہم نے ایک وزیر اعظم کو برطرف کیا۔ سب سے بڑی انتظامی اتھارٹی کو مطلق العنانیت کا اختیار نہیں، وزیراعظم اور کابینہ کو انتظامی فیصلے کرنے کا اختیار ہے لیکن صوابدیدی اختیار بھی آئین وقانون کے مطابق استعمال ہوگا، انتظامی فیصلے قانون کے مطابق نہیں ہوں گے تو ہمیں مداخلت کا اختیار حاصل ہے، منسٹر کہتا ہے جو مرضی آئے گا کریں گے، ہم دیکھتے ہیں وہ کیسے کریں گے،اس طرح چلنے نہیں دیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ وزیر اطلاعات نے بہت زومعنی بیان دیا کہ حکومت بیوروکریسی نے چلانی ہے تو الیکشن کیوں ہوتے ہیں۔اٹارنی جنرل انور منصور نے عدالت کو بتایا کہ آئی جی کے تبدیلی کا معاملہ ستمبر سے زیر غور تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیا معاملہ ہوا ایک وزیر کا فون نہیں اٹھایا تو آئی جی کو تبدیل کردیا اور وزیر اطلاعات کہتا ہے کہ آئی جی وزیر کا فون اٹھانے کا پابند ہے،کل کو وہ چیف جسٹس کو بھی پابند بنائیں گے۔ا ٹارنی جنرل نے آئی جی کے تبادلے کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ وزیر مملکت شہریار آفریدی نے وزیراعظم کو آئی جی اسلام آباد کو ہٹانے کا کہا تھا اور چند روز قبل وزیرخزانہ اسد عمر نے بھی آئی جی کی تبدیلی کے لئے کہا تھا۔ وزرا آئی جی اسلام آباد کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے، آئی جی کے ہوتے ہوئے اسلام آباد میں جرائم اور منشیات میں اضافہ ہوا۔ اٹارنی جنرل نے آئی جی جان محمد کے حوالے سے ایک ویڈیو ٹیپ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسے چلانے سے سب کچھ سامنے آجائے گا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم حکومت کے وزیروں کی ویڈیو بھی منگوا کر چلا لیتے ہیں، وہ وزیر کدھر ہے جس نے کہا کہ سپریم کورٹ جاکر وضاحت کروں گا۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ جب معاملہ عدالت میں آیا تو میڈیا پر بات کیوں کی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس آئین نے ایک وزیر اعظم کو ہٹایا ہے ،یہ اتھارٹی سپریم کورٹ کی ہے، یہ صادق اور امین ہیں جنہوں نے بھینس کھیت میں گھسنے پر بچے اٹھادئیے،یہ زمین کہاں سے آئی کیا اس پر ٹیکس دیا ۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ تبادلے کی سمری تیار کرنے کا حکم وزیر اعظم نے دیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا کیا آتش فشاں پھٹ گیا تھا کہ آئی جی کے خلاف فوری اقدام کیا۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا آپ کہتے ہیں کہ آئی جی کو نگران حکومت نے لگایا تھا، آپ نے تبادلہ کرنا تھا اور پنجاب میں تو آپ نے خود لگائے گئے آئی جی کا تبادلہ کردیا اور ناصر درانی استعفیٰ دے کر چلے گئے،آپ کی کیا کارکردگی ہے نظر آرہی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا یہ بات درست کہ اعظم سواتی کی شکایت ملنے پر وزیراعظم نے زبانی احکامات دئیے، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے فورا سمری بنا کر بھجوائی اور وزیراعظم نے آئی جی اسلام آباد کو ہٹانے کی منظوری دی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا 'آئی جی کو تو 27 اکتوبر کو ہٹا دیا گیا تھا، زبانی احکامات کی تصدیق 29 اکتوبر کو ہوئی، آئی جی کو تو سمری کی منظوری سے پہلے ہٹا دیا گیا تھا۔ اٹارنی جنرل نے کہا ' قواعد کے مطابق وزیراعظم زبانی حکم دے سکتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا رول کے مطابق یہ اختیار ہنگامی صورتحال میں ہوتا ہے، یہ تو آپ کی طوطا کہانی تھی ہوگئی۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا آئی جی اسلام آباد کے خلاف الزامات کیا تھے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا جب انٹرویوز ہوگئے تھے کسی امیدوار کو سلیکٹ کرلیا تھا تو ایمرجنسی کی کیا ضرورت تھی، تبادلہ روٹین میں کردیتے، کیا زبانی حکم دے دینا، گھر بھیج دو ہتھکڑی لگا دو قانون کی حکمرانی ہے۔ اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ، 'آپ نے سچ بولا ہے یا نہیں ہم اس معاملے پر کمیٹی بنائیں گے، ایک اور بزدار کیس نہیں بننے دیں گے۔چیف جسٹس نے کہا اتنی جلدی تھی کہ سیکرٹری داخلہ کو بھی آگاہ نہیں کیا گیا۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ وزیر کہے گا کہ جو دل میں آئے گا کریں گے۔چیف جسٹس نے کہا وزیر اطلاعات اور اعظم سواتی پیش ہوکر وضاحت کرےں۔ فواد چوہدری کے بھائی فیصل چوہدری نے کہا کہ ان کے بھائی نے کوئی ایسا بیان نہیں دیا جس سے عدلیہ کی تضحیک ہو،وہ قانونی لوگ ہیں اور یہ عدالت ان کی پہچان ہے۔چیف جسٹس نے کہا ہم تفتیش کرائیں گے کہ سواتی صاحب کتنے امین ہے،وہ باہر سے شاید امریکہ سے آیا ہے اور اب امریکہ جا بھی نہیں سکتا۔ چیف جسٹس نے فواد چوہدری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا 'آپ نے عدالت کے بارے میں اس طرح کا طنزیہ بیان کیوں دیاجس پر فواد چوہدری نے کہا کہ وہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا کہنا تھا کہ اگر وزیراعظم آئی جی کو بھی معطل نہیں کرسکتا تو پھر بیوروکریٹس سے ہی حکومت کرالیں، آپ بتا دیں کیا بیان دیا تھا، فرحت کی کہانی آپا زبیدہ کی زبانی سن لیتے ہیں، میں نے خود سنا ہے، ابھی عدالت میں آپ کا بیان چلا دیتے ہیں۔وزیر اطلاعات نے کہا کہ وہ عدالت کا بے حد احترام کرتا ہے ان کی جرا¿ت ہی نہیں کہ عدالت کے بارے میں کوئی بات کرے،بیورو کریسی میں ایک ایشو ہے اور ان کا بیان اسی پس منظر میں تھا۔چیف جسٹس نے آئین کی کتاب لہرا کر فواد چوہدری کو کہا آپ آرٹیکل فوراً پڑھیں، قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔عدالت نے فواد چوہدری کے وضاحتی بیان کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بناتے ہوئے قرار دیا کہ فواد چوہدری کے مطابق ان کے بیان کا تعلق عدلیہ کے اختیار کے بارے نہیں۔فواد چوہدری نے کہا کہ یہ بھی تو مناسب نہیں کہ آئی جی منسٹر کا فون نہ سنے اور نہ کال بیک کرے جس پر چیف جسٹس نے کہا وزیر ہے تو کیا ہوا کیا قانون سے بالا ہے، ایک عام آدمی اور ایک طاقتور وزیر کا کیا مقابلہ ہے، اگر آپ اپنے بیان پر اصرار کر رہے ہیں تو پھر میرٹ پر دیکھ لیتے ہیں۔وزیر اطلاعات نے کہا کہ وہ بالکل بھی اصرار نہیں کر رہا جس پر چیف جسٹس نے کہا ٹھیک ہے آپ کا معاملہ علیحدہ کر دیتے ہیں۔چیف جسٹس نے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی سے مکالمے کے دوران کہا کیا آپ نے سارا کیس ٹی وی پر لڑنا ہے، آپ نے عورتوں سمیت خاندان کو اندر کرا دیا، کیا وہ آپ کی طاقت کے لوگ ہیں، ان کے گھر تین دن سے چولہے نہیں جلے۔اعظم سواتی نے کہا کہ انھیں بم سے اڑانے کی دھمکی آئی تھی جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کا رقبہ کتنا ہے اور آپ نے قبضہ بھی کیا ہوا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا سواتی صاحب آپ سے اپنی انا نہیں سنبھالی جاتی، آپ کو تو لڑائی میں بڑے پن کا مظاہرہ کرنا چاہیئے تھا، یہ ہیں صادق اور امین لوگ؟ جس کے ذمے لوگوں کی حفاظت ہے، آپ کو خدا کا کچھ خوف ہونا چاہیئے۔چیف جسٹس نے کہا اس کیس کی تفتیش کے لئے جے آئی ٹی بنائیں گے اور ڈی جی ایف آئی اے سے تفتیش کرائیں گے۔چیف جسٹس نے اعظم سواتی کو حکم دیا کہ کل اپنی اور بچوں کے تمام اثاثوں کی تفصیل عدالت کو فراہم کریں جبکہ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈی جی ایف آئی اے بھی تحقیقات کریں ۔چیف جسٹس نے کہا پچھلی بار اس لیے معاف کیا تھا کہ نئی حکومت آئی ہے اور سسٹم کو چلنا چاہیے، اب دیکھیں گے آرٹیکل 62 ون ایف کا کہاں اطلاق ہوتا ہے، جیل ریکارڈ اور ایف آئی آر منگوا لی اور آئندہ سماعت آئی جی اور متاثرہ خاندان کو بھی طلب کرلیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا، کیا یہ ہیں وہ لوگ جنہیں لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرنی ہے؟ چیف جسٹس نے اعظم سواتی سے استفسار کیا آپ سمجھتے ہیں آپ سے بازپرس نہیں ہو سکتی۔
چیف جسٹس/ اعظم سواتی