’’وزیر اعظم کے نام کھلا خط‘‘
الیکشن ہوئے ۔ جیت لیے ۔ کامیابی کا تناسب کتنا رہا، قطع نظر ،حکومت کیسے تشکیل پائی ، کس جماعت کے ساتھ اتحاد کیا ،عوام نے اس بارے کوئی بات نہیں کی ۔عوام کو صرف اپنے وعدوں کی بابت جواب چاہیے ۔ان کے ساتھ کیے گئے وعدے کب پورے ہوں گے ؟اصل بات حکومت کی نہیں بلکہ اصل بات’’ ہیڈ ‘‘کی ہوتی ہے ۔جب انچارج خود عوام کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کا عزم رکھتے ہوں ،تو پھر عوام مطمئن ہو جاتے ہیں ۔موجودہ حکومت نے عوام سے جو وعدے کیے تھے اس پر بڑی حد تک کام شروع ہے ۔لیکن ستر سال کے’’ گند ‘‘کو دو ماہ میں صاف تو نہیں کیا جا سکتا ۔اس کے لیے وقت لگے گا۔لیکن ہمارے عوام یہ چاہتے ہیں کہ پل جھپکتے میں سب مسائل حل ہو جائیں ۔یہ ناممکن ہے ،لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کرپشن پر قابوپانے کی بات کی تھی عوام اس بات پر مطمئن تھے۔کرپشن یا بد عنوانی صرف رشوت اور غبن کا نام نہیں۔اپنے عہد اور اعتماد کو توڑنا یا مالی اور مادی معاملات کے ضابطوں کی خلاف ورزی بھی بدعنوانی کی شکلیں ہیں۔کرپشن ایک ایسا مرض ہے جو چھوت کی طرح پھیلتا ہے اور معاشرے کو کھا جاتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس موذی مرض نے ہماری سماجی، سیاسی اور روحانی زندگی کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔کرپشن’’ آکاس بیل ‘‘کی طرح سے ہے ۔یہاں تک کہ معاشرہ کی اخلاقی صحت کے محافظ مذہبی اور تعلیمی ادارے بھی اس کا شکار ہو جاتے ہے۔ہمارا معاملہ یوں ہے کہ کرپشن کسی جڑواں بچے کی طرح پاکستان کے بنتے ہی ساتھ آ گئی تھی۔ وہ لوگ جو آج معاشرہ میں امتیازی حیثیت کے مالک ہیں۔لیکن آپ سے گزارش ہے کہ ایک بار ہی سارے محاذ مت کھولیں بلکہ ون پوائنٹ ایجنڈے کے تحت پہلے کسی ایک کام کو پورا کریں ۔پھر بعد میں کسی اور طرف جائیں ۔قبضہ گروپ ، کرپشن اورسیاسی جماعتوں کے خلاف ایک بار ہی ایکشن لینا اپنے آپ کو مشکلات میں لانے والی بات ہے ۔لیکن بڑا المیہ یہ ہے کہ ایف بی آر اور نیب بھی پہلے یہاں موجود تھی لیکن انھوں نے کوئی کارروائی نہیں کی ۔لیکن یکدم ایکشن میں آنا لوگوں کے لیے’’ تشویش ناک‘‘ ہوتا جا رہا ہے ۔ان اداروں کے بارے بھی دیکھنا چاہیے پہلے یہ ادارے اس قدر اپنے فرائض سے غافل کیوں تھے ؟ماضی میں ان اداروں نے اس قدر غفلت برتی کہ کرپشن ایک ’’ناسور‘‘ بن گیا ہے اسی کے باعث آج حکومت کو کرپشن کے خلاف کام کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے ۔جناب وزیر اعظم آپ نے اعلان کیا تھا کہ کسی ایم این اے کو فنڈز نہیں دیں گے لیکن اب آپ لوگوں نے فنڈز دینا شروع کر دیے ہیں ۔جو کہیں پھر اس پر ثابت قدمی سے قائم رہیں۔ بلدیاتی نمائندوں کو مضبوط کریں یا پھر انھوں ختم ہی کر دیں لیکن ان کے سر پر تلوار نہ لٹکائیں۔
کرپشن ،لوٹ مار ،رشوت اورقومی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والوں کا محاسبہ ضروری ہے ۔ ہماری کرپشن، موقع پرستی، مذہبی بلیک میل اور بے حسی کی جڑیں معاشرے میں سرایت کر چکی ہے ۔روزانہ کی بنیاد پر دس ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ ہوتی ہے ۔جس پر ماضی کی تمام حکومتوں نے آنکھیں موند کیے رکھیں ۔اور مافیا اس ملک کو لوٹتا رہا ۔وزیر اعظم عمران خان سعودی ماڈل کی بات کرتے ہیں ۔لیکن یہ صرف اعلانات سے نہیں ہو گا بلکہ اس سلسلے میں عملی اقدامات کرنا ہوں گے ،کرپٹ لوگوں کو محاسبہ کرنا ہو گا ،جب تک انھوں پکڑ کر اندر نہیں ڈالتے تب تک مسائل حل نہیں ہوں گے ،دوست ممالک سے قرضہ لینے سے مسائل حل نہیں ہو سکتے ،ہمیں اپنے پائوں پہ کھڑا ہونے کے لیے خود کفیل ہو گا ۔جس میں عام آدمی کوریلیف ملنا چاہیے ۔ریلیف تب ہی ملے گا جب حکومت خو د انحصاری کی جانب آئے گی ۔تحریک انصاف حکومت بدعنوانی سے متعلق نیا قانون لا رہے ہیںاسے تمام جماعتوں کوخوش دلی سے قانون کوقبول کرنا چاہیے ,اس معاملے پر سیاست نہیں ہونی چاہئے,عوام بھی حکومت کی انسداد کرپشن مہم میں ساتھ دیں ،کرپشن کی معلومات دینے والے کی ریکوری کا 20 فیصد حصہ دیا جائے گا ،نام صیغہ راز میں رکھے جائیں گے۔اس لازمی طور پر کرپشن کا خاتمہ ہو گا ۔ہمیں امید ہے نئی نسلیں سائنس اور تخلیق کی دنیا کے ساتھ جینے کا فیصلہ کریں گی جو ایسا واحد راستہ ہے جو ’’کرپشن ‘‘سے آزاد ہے۔مجھے اس بات کی خوشی ہوئی ،جس رات میں نے وزیر اعظم عمران خان کو ’’میسج ‘‘ بھیجا ،اسی رات انھو ں نے غریب اور ریٹرھی بانوں کے خلاف کاروائی سے روک دیا ۔ اس کی مجھے بہت خوشی ہے ،چاہے آپ نے خود ہی فیصلہ کیا لیکن اس سے غریب کی جھونپڑی گرنے سے بچ گی ہے ۔لیکن قبضہ گروپ کو خلاف بلا تفریق کاروائی جاری رہنی چاہیے ۔ بااثر افراد سیاسی اثرورسوخ حاصل کرکے محکمہ مال کے آفسران کی ملی بھگت سے ایک طویل عرصہ سے سرکاری زمینون پر قبضہ کیے ہوئے ہیں جنہیںکوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ لیکن پہلی بار بلا تفریق آپریشن سے عوام خوش ہیں ۔