قومی حکومت!
سینٹ کے گزشتہ سال مارچ میں انتخابات کے انعقاد سے قبل افواہ ساز فیکٹریاں بڑے زوروشور سے ان کے انعقاد پر شکوک و شبہات کا اظہار کر رہی تھیں۔ اس کے بعد عام انتخابات ہونا تھے‘ مگر بہت سے دانشوروںکو بھی ان انتخابات کا انعقاد ناممکن نظر آرہا تھا۔ جس طرح کرپشن کے سکینڈل سامنے آرہے تھے اور عمران خان اپنے جلسوں‘بیانات اور انٹرویوز میںکرپشن اور ملکی وسائل لوٹے جانے کی بات کرتے اس سے عوام میں اضطراب تھا۔ عمران خان کڑے احتساب کا عزم بھی ظاہر کرتے تھے۔ نیب کے چیئرمین فصیح بخاری نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ملک میں روزانہ بارہ ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے ۔ اس کی کسی طرف سے تردید نہیںکی گئی۔ کرپشن کے بارے میں ایسے اعدادوشمارنے قوم کو ہلا کے رکھ دیا تھا۔ عمران خان کی طرف سے اجاگر کی گئی کرپشن نے آگ پر تیل کا کام کیا اور احتساب احتساب کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ پاکستان کیلئے درددل رکھنے والے لوگوں کی طرف سے دو تین سال کیلئے قومی حکومت کا مطالبہ سامنے آنے لگا جس کا کام کڑا احتساب ہو‘ اس کے بعد انتخابات ہوں۔ قومی حکومت کے قیام کے کا مطالبہ ایک مہم کی شکل اختیار کر رہا تھا جس کی مخالفت مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی طرف سے اس لئے بھی کی گئی کہ دونوں کو جیت کا یقین تھا۔ قومی حکومت کے قیام کی آئین میں گنجائش نہیں مگر معاشرے سے کرپشن کے خاتمے کیلئے دو چار سو گردنیں اڑانے کے خواہشمندوں کی نظریں عدلیہ اور فوج پر تھیں مگر ان کی طرف سے کسی غیرآئینی اقدام کا عندیہ نہیں دیا گیا۔
تحریک انصاف حکومت کڑے احتساب کے وعدے پر کمٹڈ ہے۔ گو ابھی کوئی کارروائی شروع نہیں کی‘ سب کچھ بیانات کی حد تک ہے۔ وزیراعظم‘ وزرائ‘ ارکان قومی و صوبائی اور پارٹی عہدیدار سب ایک ہی لے میں کہتے ہیں کسی کرپٹ‘ چور اور بے ایمان کو نہیں چھوڑیں گے‘ کسی کواین آر او نہیں دیں گے۔ جیل جانے والوں کی تعداد بھی شمار کراتے ہیں۔اس پران لوگوںکی نیندیں تو اڑنا ہی ہیں‘ جو کرپشن میں ملوث ہیں‘ جن کا کرپشن سے تعلق نہیں‘ انہیںکوئی پریشانی نہیں۔ کل تک قومی حکومت کے قیام پر زو دیا جا رہا تھا مگر اب کہیں سے ایسی آواز نہیں اٹھ رہی۔ اس لئے کہ جن مقاصد کیلئے قومی حکومت کے قیام کی باتیں ہو رہی تھیں‘ حکومت ان مقاصد کو پورا کرنے کیلئے پُرعزم اور حکومت کے اس قومی حکومت کے قیام پر زور دینے والے اعتبار کر رہے ہیں۔مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کی قیادتیں احتساب کی زد میں ہیں۔ سپریم کورٹ اور نیب میں ان کی پیشیاں ہورہی ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کو انتخابی عمل پر تحفظات ہیں۔ پی پی پی کے لیڈروں کا عمران خان کو سلیکٹڈ وزیراعظم کہنا اور انتخابات میں دھاندلی کی بات کرنا‘ موت پر پرائی عورتوںکے ’’کیرنوں‘‘ اور بین ڈالنے کے مصداق ہے۔ اسے انتخابات میں اپنی توقعات اور اوقات سے زیادہ کامیابی ملی جبکہ مولانا فضل الرحمن کو (ن) لیگ‘ اے این پی‘ پشتنخوا ملی پارٹی سمیت ہارنے والے تمام امیدواروں کے مجموعی غم سے زیادہ اپنی ایک سیٹ ہارنے کا دکھ ہے۔ وہ اس اندوہناک غم میں اگر میں نہیں تو کوئی بھی نہیں کی مجسم تصویر بنے ہوئے۔ ان کیلئے عمران خان کا اقتدار سوہان روح ہے۔ وہ برملا کہتے ہیں کہ حکومت کو چلنے نہیں دیں گے۔انہوں نے (ن) لیگ اور پی پی پی کے خلاف حکومتی رویئے کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ تحریک عدم اعتماد کیلئے صرف 6 ووٹوں کے ادھر ادھر ہونے کی ضرورت ہے۔ مولانا نے دونوں بڑی پارٹیوں کو اپنی اے پی سی میں لانے کیلئے شٹل ڈپلومیسی اختیار کی۔ زرداری سے ملاقات‘ نوازشریف سے ملاقات‘ اِس سے ملاقات‘ اُس سے ملاقات۔ 30 اکتوبر کی اے پی سی کی کوکھ سے ان کو تحریک عدم اعتماد کے جنم لینے کا پر مسرت حسیں یقین، یہ خواب وہ جاگتے ہوئے دیکھتے رہے۔ مگر عین موقع پر اے پی سی کا غبارہ پھٹ گیا اور حکومت کے خلاف اڑایا گردو غبار چھٹ گیا۔ مولانا کی تمام امیدیں دم توڑ گئیں اور مولانا کے غموں کی شب سردست طویل ہوتی نظر آتی ہے۔ دوسری طرف حکومت سخت فیصلوں کے باوجود مضبوط ہو رہی ہے۔ ماضی میں دیکھاگیا کہ عدلیہ اور فوج کے بارے میں منفی باتیں ہوئیں تو کئی حکومتیں ایک سائڈ پر کھڑی تماشہ دیکھا کرتی تھیں۔ اب حکومت سپریم کورٹ اور فوج کے ساتھ جم کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ اس کے اس عمل سے کڑے احتساب کے ایجنڈے کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔ سخت فیصلوں کی زد میں آنے کے باوجود عمران خان کے سپورٹر ابھی تک مایوس نہیں ہوئے۔ معیشت کو بہتر بنانے اور کڑے احتساب کیلئے ایسے فیصلے ہونے ہی تھے۔ اگر احتساب میں نرمی دکھائی‘ کرپشن میں ملوث لوگوں کے ساتھ کمپرومائز کیا گیا تو عمران خان کو تنہائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ قرائن کے مطابق مقتدر حلقوں کی طرف سے کڑے احتساب کا فیصلہ ہو چکا جو قومی حکومت کے بجائے جمہوری حکومت کر رہی ہے۔ اگر جمہوری حکومت کو اپوزیشن مل کر ہٹا دیتی ہے تو بھی احتساب ہونا ہے۔ آج کے احتساب پر رونے والوں کیلئے وہ احتساب بے حساب ہوگا اور عذاب سے بھی آگے والی ڈگری کا ہو سکتا ہے۔ ایسا کبھی ایران میں ہوا تھا‘چین اور شمالی کوریا میں روز ہوتا ہے۔