مرد حر زرداری۔۔۔ تصویر کا ایک رخ یہ بھی تو ہے!
نظام قدرت ملاحظہ کیجئے، انسان کی پیدائش، پھر تعلیم، اسی درمیان بچپن، جوانی اور پھر بڑھاپا، ان سارے مراحل میں انسان جس نکتے سے آغاز کرتا ہے بالاخر اسی پر اس کا اختتام ہو جاتا ہے۔ بچپن میں بچہ شریر اور ہر بات کی دریافت کی کھوج میں سوال و جواب کرتا رہتا ہے اور پھر بڑھاپے میں پہنچ کر انسان کی طبیعت دوبارہ بچوں جیسی ہو جاتی ہے۔ لہٰذا یہ سارے حقائق چیخ چیخ کر اعلان کرتے ہیں کہ انسان کی اس دنیا میں زندگی عارضی ہے، وہ فانی دنیا میں ایک مسافر اور اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے۔ آپ سوچتے ہوں گے کہ آج ان باتوں کا خیال کیسے آ گیا کیونکہ ہماری صحافت میں کالم نگاری سے لے کر اینکرشپ تک آج انسانی فطرت اور قدرت کے آفاقی قوانین کا کہیں تذکرہ نہیں ملتا اور اگر ملے تو ایسے لکھاری یا اینکر کو پسند نہیں کیا جاتا۔ یہ ناپسندیدگی صرف صنعت سے وابستہ نہیں بلکہ عوام کی غالب اکثریت بھی اس طرف زیادہ دھیان نہیں دیتی۔ تاہم ہمارے ان جملوں کا آج مطمع نظر بھی روایتی لکھاریوں اور صحافیوں سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اس طرف سوچ کو مبذول کروایا ہے۔ آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کو مذاکرات کی پیش کش کی اور کہا کہ 64سال میری اور شہباز شریف کی عمر ہو چکی ہے ہم کتنے عرصہ اور زندہ رہیں گے، قومی معاملات پر حکومت کا پانچ سال تک ساتھ دینے کا اعلان کرتا ہوں کہ نوازشریف کی طرح موجودہ حکومت کے ساتھ بھی پانچ سال چلنے کے لئے تیار ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لئے اس پالیسی پر عمل پیرا ہونا ہی پڑے گا۔ آصف علی زرداری کے اس بیان پر تحریک انصاف کے شفقت محمود بھی چپ نہ رہ سکے اور انہوں نے اپنے خطاب کے دوران آصف علی زرداری کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ آج پاکستان کو اسی وژن کی ضرورت ہے۔ آصف علی زرداری نے شفقت محمود کی تعریف پر ڈیسک بجا کر شکریہ ادا کیا۔ آصف علی زرداری کے ان جملوںکو اگر ہم دل اور دماغ کی گہرائیوں میں ڈوب کر صرف اور صرف ایک سچے محب وطن پاکستانی کے طور پر سوچیں اور اس کا جائزہ لیں تو لازمی طور پر پاکستان کو سب سے زیادہ قومی یکجہتی اور قومی معاملات میں اتفاق کی ضرورت ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ انسان کی زندگی عارضی ہے۔ پاکستان میں عمر کی شرح اوسط 55سال کے لگ بھگ ہے۔ اس بناء پر مسٹر آصف علی زرداری نے درست کہا ہے کہ وہ اور کتنے دیر زندہ رہ لیں گے۔ آج ہمارے حکمرانوں کو ایک دوسرے پر تنقید کرنے سے فرصت نہیں۔ آصف علی زرداری کا شمار ان سیاست دانوں میں ہوتا ہے جن پر سب سے زیادہ تنقید کی جاتی ہے۔ میں خود نظریاتی طور پر پیپلزپارٹی کا کبھی بھی حامی نہیں رہا لیکن بطور صحافی بسااوقات دل اور دماغ میں خیال اٹھتا ہے کہ پیپلزپارٹی پر تنقید حد سے زیادہ ہوتی ہے۔ کیا بقول پیپلزپارٹی کا یہ طعنہ کہ ہمارا میڈیا ٹرائل ہوتا ہے، جائز ہے۔ آصف علی زرداری پر کون سا وہ الزام ہے جو ماضی میں نہیں لگایا گیا۔ کئی ان کے اپنوں کے قتل کے الزامات ان پر عائد کئے جاتے رہے۔ کرپشن کا کون سا ایسا الزام ہے جو ان پر نہیں لگایا گیا۔ میں آصف علی زرداری یا کسی بھی ایسے سیاست دان جس پر کرپشن کا الزام ہے اس کا دفاع نہیں کرتا لیکن اصول اور ضابطے کا پیمانہ سب کے لئے یکساں ہونا چاہیے۔ ہم مسلم لیگ(ن)، تحریک انصاف یا کسی بڑی جماعت کے خلاف کرپشن کا الزام لگائیں تو ثبوت سامنے لاؤ کا واویلا کیا جاتا ہے لیکن آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی پر بغیر کسی ثبوت کے جو چاہے اٹھتا ہے اور کرپشن کا الزام لگا دیتا ہے۔ آصف علی زرداری نے ایک قومی اسمبلی میں بیان دیا ہے کہ میں اور کتنی دیر زندہ رہ لوں گا۔ ایک مرتبہ پہلے انہوں نے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ الزامات پر اکثر اس لئے چپ رہتا ہوں کہ اس طرح سے میرے گناہ دھلتے ہیں۔ اگر آصف علی زرداری پر سارے الزامات درست ہیں تو پھر ان کیسز کا آج تک کبھی کچھ بنا کیوں نہیں۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ انہوں نے کبھی کرپشن نہیں کی ہو گی، کوئی غلط کام نہیں کیا ہو گا لیکن ہمارے مروجہ قوانین کے تحت انہیں ثابت بھی تو کیا جائے اور اگر ثابت نہیں کر سکتے تو پھر کم از کم اقتدار کے ایوان میں قومی یکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے۔ سیاسی معاملات پر لاکھ احتجاج اور ایک دوسرے پر تنقید کی جائے لیکن ملکی مفادات کے لئے تو یکجا ہوں۔ آصف زرداری نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے سی پیک کے لئے چائنا کے14دورے کئے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ مردحر آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ میں قومی یکجہتی کے لئے وزیراعظم کو تعاون کی پیشکش کر کے خود کو قومی سیاسی جماعت کا شریک چیئرمین ثابت کر دیا ہے۔ آج کے اس کالم میں ہم آصف علی زرداری کی تصویر کے دوسرے رخ کے عکس میں تعریف کر رہے ہیں لہٰذا تنقید کرنے والوں کے لئے میدان کھلا ہے وہ چاہے ہمیں بھی تنقید کا نشانہ بنائیں لیکن تصویر کا ایک رخ تو ہے۔