راولپنڈی : مولانا سمیع الحق شہید‘ گھر میں گھس کر چاقو کے وار کئے گئے‘ افغان حکومت سے خطرہ تھا
راولپنڈی+ اسلام آباد+ لاہور (اپنے سٹاف رپورٹر سے+ نمائندہ خصوصی+ نامہ نگار+ خبرنگار+ ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کو راولپنڈی کی ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں ان کی رہائش گاہ میں گھس کر چاقو کے وار کر کے شہید کردیا گیا یہ واقعہ نماز مغرب سے کچھ دیر پہلے پیش آیا سٹریٹ نمبر10 میں واقع اپنے گھر میں وہ اپنے خدمتگار کے ساتھ موجود تھے ان کا ملازم سودا سلف خریدنے گیا جب واپس آیا تو مولانا سمیع الحق کمرے میں اپنے بیڈ پر خون میں لت پت پڑے تھے جنہیں فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے ان کی شہادت کی توثیق کردی ۔ پولیس کے مطابق گھر کے ملازم نے بتایا ہے کہ مولانا کو دو آدمی ملنے آئے جنکی خاطر مدارت کے لئے وہ وہ سودا سلف لانے بازار گیا تھا اور جب واپس آیا تو مولانا سمیع الحق کو زخمی حالت میں پایا۔ ان کے جسم پر چاقو کے نشانات تھے۔پولیس ذرائع کاکہناہے کہ ان کے جسم اورچہرے پر چاقو کے کئی گہرے نشانات موجود تھے ۔ وہ دار العلوم حقانیہ کے مہتمم اور سربراہ، دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین تھے۔ مولاناسمیع الحق کے صاحبزادے مولانا حامد الحق نے بتایاکہ نامعلوم افراد نے گھرمیں گھس کروالدگرامی پر چاقو کے پے درپے وار کرکے انہیں شہید کیا ہے ۔ مولانا کے ذاتی ڈرائیور اور گن مین دس پندرہ منٹ کے لئے گھر سے باہر گئے ہوئے تھے جب وہ واپس آئے تو ان کی لاش بیڈ پر خون میں لت پت پڑی تھی ۔پولیس ذرائع کاکہناہے کہ پولیس کی تفتیشی ٹیم نے مولانا کے ذاتی ملازمین کو حراست میں لے کر ان سے پوچھ گچھ شروع کردی ہے۔ذرائع کایہ بھی کہناہے کہ حملہ آورموٹرسائیکل پر آئے تھے جو پہلے بھی مولانا سے ملاقات کے لئے آتے رہتے تھے۔ افسوسناک واقعہ کی خبر ملنے پروزیر اعظم عمران خان کو بیجنگ میں سربراہ جے یو آئی (س) مولانا سمیع الحق پر حملے اور انکے جاں بحق ہونے کی اطلاع کر دی گئی۔ مولانا سمیع الحق بیمار تھے اور انکا علاج چل رہا تھا۔ ان کی عمر 80 سال سے زائد تھی۔ مولانا سمیع الحق کے صاحبزادے حامد الحق نے کہا کہ ڈرائیور اور گن مین 10، 15 منٹ کیلئے باہر گئے تھے جبکہ وہ واپس آئے تو اس نے دیکھا کہ والد خون میں لت پت تھے۔ مولانا سمیع الحق نے بڑی جرات اور بہادری سے انسداد پولیو ورکرز پر حملوں کیخلاف آواز اٹھائی تھی جس پر انہیں دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔ مولانا حامد الحق نے کہا کہ مولانا سمیع الحق کو افغان حکومت کی جانب سے خطرہ تھا۔ مولانا سمیع الحق دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین بھی تھے۔ سینئر وزیر پنجاب عبدالعلیم خان نے مولانا سمیع الحق پر قاتلانہ حملے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مولانا سمیع الحق بزرگ سیاسی شخصیت اور عظیم مذہبی رہنما تھے جن کی اسلام اور ملکی سیاست کیلئے خدمات کو تا دیر یاد رکھا جائے گا۔ سینئر وزیر نے کہا کہ موجودہ ملکی حالات میں ایسا سانحہ حکومت کے خلاف گہری سازش معلوم ہوتا ہے۔ عوام سے اپیل ہے کہ وہ اس صورتحال کے پیش نظر اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔ جے یو آئی کے امیر مولانا سمیع الحق کی میت رات گئے اکوڑہ خٹک منتقل کردی گئی جہاں ان کی نماز جنازہ آج ہفتہ کو سہ پہر تین بجے ادا کی جائے گی۔ مولانا کے صاحبزادے مولانا حامد الحق اور قریبی ساتھی مولانا یوسف شاہ و دیگر بھی میت کیساتھ گئے ہیں۔ مولانا یوسف نے بتایا کہ علماء کے فیصلہ کے مطابق پوسٹمارٹم نہیں کرایا گیا۔ مولانا سمیع الحق شہید کی میت راولپنڈی سے اکوڑہ خٹک منتقل کرنے کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے راولپنڈی اور اسلام آباد کی پولیس کی بھاری نفری ساتھ تھی جبکہ ایلیٹ فورس کے اہلکار بھی میت کے ساتھ تھے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق مولانا سمیع الحق کا قتل گھر کی بالائی منزل پر ہوا، قتل میں ایک سے زیادہ افراد کے ملوث ہونے کا شبہ ہے۔ آئی جی پنجاب، امجد جاوید سلیمی نے مولانا سمیع الحق پر قاتلانہ حملے کے حوالے سے آر پی او، راولپنڈی سے رپورٹ طلب کرلی۔ شہریوں سے بھی پرامن رہنے کی اپیل کی ہے۔ شیخوپورہ سے نمائندہ خصوصی کے مطابق مولانا سمیع الحق کی شہادت کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی، مذہبی جماعتوں نے آج احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ ڈی آئی جی مردان محمد علی گنڈا پور نے کہا ہے کہ مولانا سمیع الحق اور مدرسہ حقانیہ کی سکیورٹی پر 11اہلکار تعینات تھے، آٹھ پولیس اہلکار مدرسہ حقانیہ کی سکیورٹی پر تعینات ہیں، تین پولیس اہلکار مولانا سمیع الحق اور حامد الحق کی سکیورٹی پر مامور تھے۔ حملے کے وقت پولیس اہلکار مولانا صاحب کے ساتھ نہیں تھے۔ مولانا سمیع الحق کے بیٹے اور بھائی سے ملاقات کی ہے۔مولانا سمیع الحق کے قتل پر جے یو آئی نظریاتی نے آج کوئٹہ میں ہڑتال اور احتجاج کا اعلان کیا ہے۔
مولانا سمیع الحق