دہشت گردی کیخلاف جنگ جیتنے کے قریب‘ توجہ نہ ہٹائی جائے‘ ہر معاملہ میں فوج کو گھسٹینا افسوسناک ہے : آئی ایس پی آر
اسلام آباد (آن لائن+ صباح نیوز+ آئی این پی) پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ ہر معاملے میں فوج کو گھسیٹنا افسوسناک ہے‘ آسیہ کیس کا فوج سے کوئی تعلق نہیں ہے‘ قانونی کارروائی کو مکمل ہونے دیا جائے‘ معاملہ عدالت میں ہے اور کوئی فیصلہ آنے کے بعد مسلمان آگے کا راستہ چن سکتے ہیں‘ خواہش ہے امن وامان خراب کیے بغیر معاملات حل ہوں‘ فوج کےخلاف باتیں عرصے سے برداشت کر رہے ہیں‘ آئین وقانون کے مطابق ایکشن ممکن ہے‘ کوشش کی جائے پاک فوج کو ایکشن لینا نہ پڑے‘ ہمیں اسلامی تعلیمات کو نہیں چھوڑنا چاہیے‘ تمام مسلمانوں کا رسولﷺ سے محبت کا رشتہ‘ سمجھوتہ نہیں کریں گے‘ دہشتگردی کیخلاف جنگ جیتنے والے ہیں توجہ نہ ہٹائی جائے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور نے سرکاری ٹی وی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ آسیہ مسیح کا کیس گزشتہ 10 برسوں سے عدالتوں میں چل رہا ہے، اس کیس کا فوج سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ قانونی معاملہ ہے۔ پاک فوج کی خواہش ہے کہ امن و امان کی صورتحال خراب کیے بغیر معاملات حل ہوجائیں۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کےخلاف مذہبی جماعتوں نے دھرنا دیا جبکہ حکومت کی جانب سے مظاہرین سے بات چیت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور آئی ایس آئی کے نمائندے اس وفد میں شامل ہیں۔ ہم سب متحد ہوں گے تو ملک آگے جائےگا۔ ہم نے امن تو قائم کر لیا ہے اور استحکام کی طرف جا رہے ہیں لیکن ابھی کام کرنا باقی ہے اور اس موقع پر فوج کی توجہ باقی مسئلوں کے طرف جائے تو میری پاکستانیوں سے اپیل یہ ہے کہ ہماری توجہ کو دائیں بائیں نہ کریں، خواہ وہ سیاست ہے یا اس قسم کے مسئلے ہیں ہم بہت برداشت کر رہے ہیں ۔ اس ملک سے ہمیں پیار ہے۔ اس کی عوام ہمیں پیار کرتی ہے۔ عوام اور فوج نے مل کر ملک میں امن قائم کیا۔ دشمن قوتوں کی نظر ہے اس امن کو نہ ہونے دیں۔ انہوں نے کہا کہ امن و امان کی ایک صورتحال بنی ہوئی ہے، اس میں مذاکرات کے لئے حکومت کا ایک وفد گیا اور اس میں آئی ایس آئی کے افسر حکومت کے وفد کا حصہ ہیں آخری مرتبہ بھی جب مذاکرات ہوئے تھے تو آئی ایس آئی کا جو افسر تھا حکومت کا حصہ ہوتے ہوئے مذاکرات میں گیا ۔ انہوں نے کہا فی الحال حکومت کی سطح پر بات چیت چل رہی ہے۔ حکومت ان سے بات چیت کرنا چاہتی ہے اور کی ہے اور کیسے آگے جائے گی۔ اس کے بعد حکومت کے اپنے ٹیئرز اپ ایپلیکیشن ہیں۔ پولیس ہے، سول آرمڈ فورسز میں رینجرز آئے گی اور پھر افواج پاکستان کو طلب کیا گیا تو پھر آرمی چیف اپنا مشورہ دیں گے یا جو بھی وزیر اعظم کا حکم ہو گا اس کے مطابق امن و امان کی صورتحال کو ٹھیک کرنے کے لیے عملدرآمد ہو سکتی ہے انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے دوران ایک آدھی بات اوپر نیچے دونوں طرف سے ہوئی ہے تو ان کو یہ دیکھنا چاہیے کہ مذاکرات کا مقصد ایک بہتر صورتحال کی طرف جانا ہے۔ حکومتی وفد کے ساتھ ان کے مذاکرات اگر ہوں تو دونوں کو ایک دوسرے کی بات سننی چاہیے اور اس سٹیج پر نہ آئے کہ افواج پاکستان کی ذمہ داری میں آ جائے وہ سٹیج نہیں آنی چاہیے یہ ہمارا ملک ہے اس میں کسی قسم کی شرانگیزی اشتعال پسندی نہیں ہونی چاہیے۔ جب ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں تو اسلام تو سکھاتا ہی ہمیں امن ہے، اسلام تو سکھاتا ہی ہمیں درگزر ہے اور اسلام تو سکھاتا ہی ہمیں پیار ہے۔ اگر ہم اس نبیﷺ کی ذات کے ماننے والے ہیں جنہوں نے صرف امن کا سبق دیا تو ساری دنیاکیا دیکھ رہی ہو گی۔ ہمیں حضور ﷺ کی ناموس کے اوپر کسی قسم کی بات کو بھی نظرانداز اور برداشت بھی نہیں کرنا چاہیے لیکن ہر چیز کا ایک طریقہ ہوتا ہے اس کے مطابق چلنا چاہیے۔ افواج پاکستان کے پاس جب یہ کیس آئے گا تو ہم اس کے مطابق اس کے اوپر فیصلہ کریں گے۔
فوجی ترجمان