چودھری پرویز الٰہی اور فیاض چوہان کی کھری کھری!
پاکستانی سیاسی تاریخ اس حقیقت کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے کہ سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی جس خاندان کے چشم و چراغ ہیں اس خاندان کے افراد نے اس دور میں سیاست میں قدم رکھا تھا ، جب سیاست کا صلہ آہنی زنجیریں تھیں ۔ اس تاریخی داستان کے اوراق لاہور سے کو لہو تک بکھرے ملتے ہیں ۔ ملک و ملت کی خدمت کے میدان میں جس دولت جنوں کی روایت کم کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔اسی دولت جنوں کو چودھری پرویز الٰہی سنبھالے ہوئے ہیں ۔ اس راہ میں ان کو کیسے کیسے صبر آزما ادوار سے گزرنا پڑا اسکے تذکرہ کیلئے یقینا ایک دفتر درکا ر ہوگا۔ چودھری پرویز الٰہی نے ماضی پس اپنے دور وزارت اعلیٰ میں گڈ گورننس کی جو روشن مثالیں کیں پنجاب کی تاریخ میں اسکی نظیر نہیں ملتی۔ ایسے کام کئے اور ایسے ایسے ادارے قائم کئے جن کا براہ راست عام آدمی کی فلا ح و بہبود سے تھا۔ پنجاب کے عوام کی ضرورت کے مطابق تھا۔ اب چودھری پرویز الٰہی ملک کی سب سے بڑی صوبائی اسمبلی کے سپیکر ہیں تو انہیں پنجاب کی حالت زار کا ذکر کرتے ہوئے جو اب محسوس ہوا ہے۔ اس کا اظہار انہوں نے اس طرح کیا ہے گویا اپنا دل کھول کررکھ دیا ہو جو باتیں کہہ رہے ہیں وہ عوام کے دلوں کی ترجمانی ہے ان کا کہنا ہے کہ لاہور شہر میں اورنج ٹرین منصوبہ خزانے پر بوجھ ہے۔ ساہیوال کول پاور پلانٹ ایسے منصوبے صرف کمشن کے چکر میں شروع کئے گئے۔ جہاں تک اورنج لائن ٹرین کا معاملہ ہے۔ اس منصوبے پر محض ذاتی نام و نمود کے حصول کی ناکام کوشش کرتے ہوئے اربوں کھربوں روپے خرچ کئے گئے اس قدر بھاری رقوم سے پنجاب کے پانی سے محروم شہری اور دیہی علاقوں کے کروڑوں عوام کا پینے کے پانی کا مسئلہ بہت حد تک حل کیا جا سکتا تھا۔ خود لاہور کے کروڑوں عوام اس بات پرکس قدر دل گرفتہ ہیں کہ مخصوص مفادات کے حصول کی اورنج لائن ٹرین کے منصوبے کے ذریعے قدیم شہر لاہور کے تاریخی تشخص کو مسخ کرکے رکھ دیا گیا۔
یقینا انہی حقائق کی روشنی میں پنجاب کے وزیر اطلاعات و ثقافت فیاض الحسن چوہان نے اس صورتحال کو پنجابی کی ایک خوبصورت ضرب المثل سے تشبیہ دی ہے کہ سابق حکمرانوں نے بدعنوانیوں کی نئی راہیں تراش کر بیڈ گورننس کی بد ترین مثالیں قائم کیں ، انکی ہاتھوں کی لگائی گئی راہ کرپشن کیلئے گانٹھیں موجودہ حکومت کو دانتوں سے کھولنا پڑ رہی ہیں۔ فیاض چوہان نے بڑے دبنگ انداز میں گزشتہ دنوں میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کے ویژن کے مطابق ہمارا ایجنڈا صرف اور صرف احتساب کے عمل کو جاری رکھنا ہوگا ۔ عدالت عظمیٰ، قومی احتساب بیورو اور وفاقی تحقیقاتی ادارہ کو تمام اختیارات سے بہرہ در رکھنا ہمارا مطمح نظر ہے۔ مسلم لیگ ن کو چودھری پرویزالٰہی بطور سپیکر ہضم نہیں ہورہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز شریف جس اپوزیشن کے ارکان کے ساتھ احتجاج کرتے ہیں وہ در حقیقت باپ بیٹا لمیٹڈ کمپنی ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے ارکان ایوان میں موجود ہیں اور اس کا حصہ ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ پیپلزپارٹی کے ارکان اس احتجاج سے لاتعلق تھے ۔ جو مسلم لیگ ن کی طرف سے سپیکر کے اسی فیصلے کیخلاف کیا گیا جو بجٹ اجلاس کے موقع پر ایوان میں ہلڑ بازی اور توڑ پھوڑ کے الزامات میں اپوزیشن کے چھ ارکان کو ایوان میں آنے سے روکا گیا ۔
پنجاب کے صوبائی وزیر اطلاعات و ثقافت فیاض الحسن چوہان جب بھی حزب اختلاف کی طرف سے حکومت کیخلاف بیانات پر رد عمل کا اظہار کرتے ہیں تو ان حس ظرافت ضرور بھڑک اٹھتی ہے اور ایسے میں کھری کھری سناتے ہوئے بعض اصطلاحات کو بھی استعمال کرتے چلے جاتے ہیں ۔ میڈیا سے گفتگو کے دوران انہوں نے حالیہ انتخابات میں شکست سے دو چار ہوجانیوالے جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی طرف سے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کی کوششوں کے حوالے سے کہا کہ یہ آل پارٹیز کا نفرنس نہیں ۔ بلکہ پاکستان لوٹ مار ایوسی ایشن ہے جسکے کنونیئر مولانا فضل الرحمن ہیں ۔ایسا ہی ہے کہ جیب میں نہیں دھیلا اور چلے دیکھنے میلہ در حقیقت صوبائی وزیر اطلاعات کے یہ الفاظ ایک لحاظ سے کنونیئر آل پارٹیز کا نفرنس پر ٹھیک ٹھیک نشانے کی حیثیت رکھتے تھے ۔ گزشتہ دنوں انہوں نے راولپنڈی میں عوامی و فود سے گفتگو کرتے ہوئے کہ حزب اختلاف کے رہنمائوں کا گٹھ جوڑ کسی جمہوریت یا ملک و قوم کی بہتری کیلئے نہیں بلکہ اپنے غیر قانونی اثاثوں کے تحفظ کیلئے ہے۔ مگر اس میں انکی کامیابی ناممکن ہے۔ مولانا فضل الرحمن سے تحریک انصاف کی جیت ہضم نہیں ہو رہی وہ اپنی شکست کا بدلہ ملک میں احتجاجی سیاست سے قومی ترقی اور معاشی استحکام میں روڑے اٹکا کر لینا چاہتے ہیں ۔ حقائق کچھ اس طرح ہیں کہ قومی احتساب بیورو کے جس ادارے سے ماضی کی حکمران جماعتیں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی ہر لمحہ شکوہ بلب رہتی ہیں اور اس کی ایسی کارروائیوں کو میری طرح ہدف تنقید بناتے ہوئے تھکتی نہیں ہیں ۔ وہ قومی احتساب بیورو انہی دونوں جماعتوں نے اپنے اقتدار و اختیار میں تشکیل دیا تھا ۔ اگر انکے اپنے عہد اقتدار، عہد اختیار میں اسکے بارے میں انکے پاس سب سے اچھا ہے اور باعث اطمینان رپورٹس تھیں تو اب اس ادارے کی مخالفت میں ابتری جوٹی کا زور لگانے کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے۔