• news
  • image

عالمی اقتصادی بحران کی پشین گوئی

احمدجمال نظامی
سابق صدرمملکت و پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے ایک نجی ٹی وی چینل کو اپنے انٹرویو میں آئندہ عالمی معاشی و اقتصادی بحران کے ملک پر براہ راست اثرات کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ وہ اپنے عرصہ صدارت کے دوران چین کے 14دوروں کے دوران اس کی قیادت کو یہ باور کرواتے رہے کہ سی پیک یا گوادر بندرگاہ کی صورت میں پاکستان کی برآمدات میں بھی اضافہ کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان سعودی عرب، چین اور آئندہ شاید ابوظہبی سے بھی بیل آؤٹ پیکج حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں لیکن اس کے مثبت اثرات وقتی طور پر ہوں گے جبکہ دیرپا دورانیہ میں حکومت کو کئی طرح کے معاشی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس ضمن میں انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بھی مثال دی کہ جو اس وقت سب سے پہلے امریکہ کو درست کرنے کا نعرہ لگا کر نا صرف گندم کی امداد محدودکرر ہے ہیں بلکہ دنیا میں امریکی بحری جنگی بیڑوں کے کرایوں وغیرہ میں بھی اضافہ کیا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر گزشتہ کچھ عرصے سے بحرانی کیفیت کے بادل چھائے ہوئے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند سالوں سے غیر مسلم ممالک بھی اپنے مالیاتی نظام سے سود کا عمل دخل کم کر نے کے اقدامات کر رہے ہیں۔
بین الاقوامی سطح کے معاشی و اقتصادی بحران کا جہاں تک پاکستان سے تعلق ہے تو اس کے منفی اثرات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں اضافے اور پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ بھاری بھر کم ٹیکسز ہماری حکومت کے لئے آئندہ کسی بہت بڑے چیلنج سے کم نہیں ہوں گے کیونکہ ایف بی آر اپنی روایت کے مطابق گزشتہ سال بھی اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا اور حکومت کو لامحالہ پٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑتا ہے جس کے منفی اثرات ایک عام آدمی پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ کہ سبسڈی وغیرہ کے خاتمے اور دوسری طرف افراط زر بڑھنے سے مہنگائی کی شرح میں خاطرخواہ اضافہ ہوتا ہے۔ ملک میں روزگار کے مواقع کم ہوتے ہیں۔ صنعتی پیداواری عمل متاثر ہونے سے ملکی برآمدات میں کمی کی صورت میں زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوتے ہیں۔ ان دنوں بھی حکومت کو جب سعودی عرب کی طرف سے ایک بیل آؤٹ پیکج ملا ہے تو اس کے باوجود ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر زیادہ مستحکم پوزیشن پر نہیں کھڑے ۔اس کے لئے ضرورت اس امر کی ہو گی کہ گوادر بندرگاہ اور سی پیک کے منصوبوں پر جس انداز میں آصف علی زرداری نے اشارہ کیا ہے حکومت تمام سٹیک ہولڈرز یعنی چین، وفاق پاکستان اس کی اکائیوں میں بلوچستان سب ایک ساتھ مل کر پاکستان کی برآمدات کو بڑھانے کی مربوط پالیسی مرتب کریں۔ مقامی صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کو وسیع مواقع فراہم کئے جائیں۔ گزشتہ روز ہی ایک خبر آئی تھی جس کے مطابق وزیراعظم نے ماہی پروری کی صنعت کو فروغ دینے کا اعلان کیا ہے۔ گوادر میں ماہی پروری ایک بڑی صنعت ہے اس کے علاوہ صوبہ کے پی کے میں پاکستان کے پاس دریاؤں، چشموں اور ندی نالوں میں ٹراؤٹ فش سمیت ایسی ایسی نایاب نسل کی مچھلیاں موجود ہیں کہ گوادر کے ذریعے باقاعدہ ماہی پروری کی صنعت کو فروـغ دے کر ایک بڑا ریونیو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں معیشت میں آج بھی شعبہ زراعت اور ٹیکسٹائل ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان شعبوں پر خصوصی توجہ دینی چاہیے ۔ حکومت کی طرف سے پیداواری شعبے کے لئے گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہ کر کے ایک اچھا اقدام اٹھایا گیا تھا لیکن شعبہ ٹیکسٹائل اور زراعت کے لئے حکومت کی طرف سے کئی بنیادی اقدامات اٹھانے ابھی باقی ہیں۔ چین پاکستان کا دیرینہ دوست ملک ہے اور وہ پاکستان کے ہر مشکل وقت میں اس کا ساتھ دینے کے لئے تیار رہتا ہے۔ گوادر بندرگاہ سے برآمدات بڑھانے اور مقامی سرمایہ کاروں و صنعت کاروں کو اس میں ایڈجسٹ کرنے کے لئے حکومت کو اپنے طور پر مربوط پالیسیاں اپنانا ہوں گی۔ اس کے علاوہ صوبہ بلوچستان جو کہ معدنیات سے مالامال صوبہ ہے۔ اس صوبے میں موجود قدرتی معدنیات کے ذریعے حکومت پاکستانی برآمدات اور پاکستانی معیشت کو بہت حد تک مضبوط کر سکتی ہے۔ اس مقصد کے لئے ضروری ہے کہ حکومت اور متعلقہ وزارتوں کے ذمہ داران، متعلقہ شعبوں کے احباب کے ساتھ ماہرین کا ایک ایسا بورڈ تشکیل دیں جو ریسرچ کرے اور اپنی تحقیق کے بعد اس پر عملدرآمد کے لئے حکومت کو تیار کرے۔ اس طرح کے اقدامات سے پاکستان اپنی برآمدات اور پیداواری شعبے کو بڑھاتے ہوئے آئندہ جس بین الاقوامی معاشی و اقتصادی بحران کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے اس سے باآسانی نبردآزما ہو سکتا ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن