ڈیم بجلی کے بحران کا موثر حل
عابد خورشید
پاکستان کا شمار زرعی ممالک میں ہوتا ہے، بدقسمتی سے زیر زمین پانی کی کمی سے ایسے خدشات پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں،جس سے پاکستان میں زراعت کا مستقبل خطرے میں دکھائی دے رہا ہے ۔ اس وقت پاکستان کا شمار دنیا کے ان سات ممالک میں ہونے لگا ہے جہاں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے درجہ حرارت تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے ملک کے ان مسائل کی جانب شایدکبھی پوری توجہ ہی نہیں دی۔ جس کے باعث پاکستان جیسے پانچ دریاؤں کے حامل ملک میں پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ جس کے بعد اب درجہ حرارت بھی تیزی سے تبدیل ہونا شروع ہو گیا ہے۔ ملک میںپانی کی قلت کو دور کرنے اور گوبل وارمنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے موجودہ حکومت نے اقدامات شروع کر دیئے ہیں جس کے تحت ملک بھر میں شجرکاری مہم تیزی سے جاری ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ اگر نیک نیتی سے اس کام کو کیا جائے تو اگلے پانچ سالوں میں ملک بھر میں کم از کم کروڑوں نئے درختوں کا اضافہ ہو جائے گا جو ماحول کی تبدیلی کا باعث بنیں گے۔ حکومت کی جانب سے پانچ سالوں میں 10 ارب نئے درخت لگانے کا اعلان کر رکھا ہے۔
پانی کی قلت کو ختم کرنے کا ایک ہی بہترین ذریعہ ہے کہ اس ملک میں زیادہ سے زیادہ ڈیم بنائے جائیں۔پاکستان میں اس وقت 150 کے قریب چھوٹے بڑے ڈیم موجود ہیں جو اپنی استعداد کے مطابق بجلی پیدا کرنے کے ساتھ پانی بھی مہیا کر رہے ہیں۔ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر یہ ڈیم اب بہت کم ہو گئے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں نئے ڈیم فوری تعمیر کیے جائیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے گلگت بلتستان میں دیامیر بھاشا ڈیم بنانے کے لیے فنڈ ریزنگ مہم کا آغاز کیا جا چکا ہے۔اس ڈیم کی تعمیر آج سے تقریباً 12 سال پہلے 2006ء میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے اس مقام پر ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا۔ اب تک اس ڈیم کی تعمیر کے لیے تین وزیر اعظم اس منصوبے کا افتتاح کر چکے ہیں۔ سب سے پہلے وزیر اعظم شوکت عزیز نے 2007ء میں اس منصوبے پر کا م کا آغاز کیا جس کے بعد پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے 2011ء میں جبکہ 2016ء میں وزیر اعظم میاں نواز شریف کی جانب سے دیا میر بھاشا ڈیم کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ 2006ء میں اس منصوبے پر 12 سے 15 ارب ڈالر کی لاگت آنا تھی جو سیاست کی نظر ہوتے ہوتے ساڑھے 9 سو ارب سے بھی تجاوز کرتی دکھائی دے رہی ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر ملک بھر میں ڈیم کے بنانے کے لیے فنڈ ریزنگ کی مہم جاری ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بھی اس کے لیے دیار غیر میں بسنے والے پاکستانیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ڈیم فنڈ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ حکومتوں کی سیاست کی وجہ سے پاکستان کا یہ ڈیم پہلے ہی 10 سے 12 سال تاخیر کا شکار ہو گیا ہے اب اگر اس میں مزید کوئی تاخیر کی گئی تو اس کی ذمہ داری نہ صرف موجودہ حکومت پر عائد ہوگی بلکہ سابقہ دور میں ملک پر حکمرانی کرنے والے حکمران بھی اس کے ذمہ دار ہونگے۔ ڈیم بننے سے پاکستان میں بجلی سمیت پانی کے بحران پر مؤثرطور پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ڈیم بنانے کے لیے جذبے کی ضرورت ہے ہمیں کسی سے بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں۔ بلا شبہ اس مرتبہ ڈیم بنانے کے لیے عوام کی جانب سے دیئے جانے والے فنڈز کا استعمال اس اصل مقصد کے لیے ہی کیا جائے گا۔