کرکٹ کمیٹی کے مسائل اور نیا ڈائریکٹر میڈیا!!!!
پاکستان کرکٹ بورڈ نے سابق چیف سلیکٹر و ہیڈ کوچ قومی کرکٹ ٹیم محسن حسن خان کی سربراہی میں ایک کرکٹ کمیٹی تشکیل دی ہے۔ اس کمیٹی میں وسیم اکرم، مصباح الحق، عروج ممتاز، ہارون رشید، مدثر نذر اور ذاکر خان بھی شامل ہیں۔ قومی کرکٹ کے مسائل حل کرنے کے لیے قائم کرکٹ کمیٹی ابھی ایک اجلاس بھی نہیں کر پائی لیکن کئی تنازعات کرکٹ کمیٹی کے ساتھ جڑ چکے ہیں۔ایسی کرکٹ کمیٹی جس نے ملکی کرکٹ کو بحرانوں سے نکالنا تھا خود ہی بحران کا شکار ہے۔
کرکٹ کمیٹی میں وسیم اکرم کی شمولیت سے ایک بڑا تنازعہ سامنے آیا پھر سابق فاسٹ باولر کی شمولیت کو جائز ثابت کرنے لیے پی سی بی کے نئے چیئرمین احسان مانی کا جسٹس قیوم کمشن کی رپورٹ پر خیالات کا اظہار بھی موضوع بحث بنا رہا۔ وہ اب تک اپنے پہلے خیال پر قائم ہیں۔ ویسے یہ ایک لمبی اور نہ ختم ہونیوالی بحث ہے کہ قیوم کمشن رپورٹ میں کیا تھا کیا نہیں تھا کون اس میں سچا کون جھوٹا ہے کون درست ہے اور کون غلط لیکن ایک بات طے ہے کہ اس دور میں ہونیوالی خرابیوں اور منفی کاموں میں وسیم اکرم کو کسی بھی طرح بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا یہ الگ بات ہے کہ احسان مانی انہیں ہر حال میں کرکٹ کمیٹی میں شامل کرنا چاہتے ہیں شوق سے کریں لیکن اس کام کے لیے انہیں تاریخ کو غلط ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ قیوم کمشن رپورٹ میں کچھ واضح نہیں لکھا گیا تو کچھ اس میں کسی چیز بارے پردہ بھی نہیں رہا کمشن ایک کھلاڑی کے بارے یہ لکھ دے کہ اس نے کمشن سے تعاون نہیں کیا اس جملے کے بعد کوئی بات باقی رہ جاتی ہے۔ بہرحال وسیم اکرم بورڈ چیئرمین کے پسندیدہ کرکٹر ہیں وہ اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ایک دن کا چیئرمین بھی بنا سکتے ہیں کرکٹ کمیٹی میں شامل کرنا تو بہت معمولی بات ہے۔ کرکٹ کمیٹی کے سربراہ محسن حسن خان اور ہیڈ کوچ مکی آرتھر کے اختلافات پر احسان مانی نے بھی اپنا نقطہ نظر پیش کرنے سے معذرت کی۔ چیئرمین پی سی بی بھی سرفراز احمد کو عالمی کپ دوہزار انیس تک کپتان مقرر کرنے کے حوالے سے کسی حتمی فیصلے پر نہیں ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے اس کام کے لیے کرکٹ کمیٹی کی تجاویز کو اہمیت دینی ہے اور سرفراز کی کپتانی کے حوالے سے کمیٹی کے اراکین میں ہی اتفاق رائے نہیں ہے۔ ویسے یہ اتفاق رائے احسان مانی اور سبحان احمد کے ساتھ ایک میٹنگ میں ہی قائم ہو جائیگامحسن خان نے سرفراز احمد کی کپتانی پر تحفظات کا اظہار کیا تو مصباح الحق سرفراز کی حمایت میں بول پڑے۔ کمیٹی میں شامل ہارون رشید بھی قیوم کمشن رپورٹ میں وسیم اکرم کے حوالے سے خاصے سخت بیانات دے چکے ہیں۔ کرکٹ کمیٹی کے پاس کوئی اختیارات نہیں ہیں یہ صرف تجاویز دے سکتے ہیں یعنی یہ کرکٹ کمیٹی کم اور تجاویز کمیٹی زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ محسن خان کی سربراہی میں کام کرنیوالی اس کمیٹی کے پاس اجلاس طلب کرنے کا بھی اختیار نہیں ہے ورنہ کم از کم اب تک اس کمیٹی کی ایک میٹنگ ہو چکی ہوتی۔ اگر ایسا ہی ہے کہ کرکٹ کمیٹی کے پاس اجلاس طلب کرنے کا بھی اختیار نہیں ہے تو پھر انہیں کام کرنے میں کتنی آزادی ہو گی اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ کرکٹ کمیٹی میں سابق کرکٹرز کو شامل کرنا خوش آئند ہے لیکن کیا آگ اور پانی کے ملاپ کی کوششیں ماضی میں ناکام ہوئی دیکھنا یہ ہے کہ اس مرتبہ بھی یہ تجربہ ناکام ہوتا ہے یا پھر کوئی معجزہ ہو گا۔ کمیٹی کے سربراہ ماضی میں سپاٹ فکسنگ میں ملوث کرکٹرز کو پاکستان ٹیم میں شامل کرنے کی مخالفت کر چکے ہیں اب وہ سلمان بٹ کی واپسی کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔ یوں اب تک کرکٹ کمیٹی اور اس کے بنانے والوں کے کریڈٹ پر صرف اور صرف تنازعات ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو ڈائریکٹر میڈیا کی بھی تلاش ہے اس اہم ذمہ داری کے لیے انٹرویوز ہو چکے ہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ انٹرویوز سے قبل ہی بورڈ کے ایک ذمہ دار افسر نے کسی محفل میں کہا تھا کہ ہم اس عہدے پر آئی سی سی میڈیا اینڈ کمیونیکیشن ہیڈ سمیع الحسن برنی کو لائیں گے۔ سمیع الحسن برنی پی سی بی کے جنرل منیجر میڈیا کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ صحافت سے انکا پرانا اور گہرا تعلق ہے۔ خوش اخلاق ہیں اور میڈیا ہینڈلنگ کا فن جانتے ہیں۔ اگر وہ آتے ہیں تو اس سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ احسان مانی نے اپنی ٹیم کی تشکیل پر کام شروع کر دیا ہے۔ یہ سیٹ امجد حسین بھٹی کی واپسی کے بعد خالی تھی وہ نجم سیٹھی کے مستعفی ہونے کے بعد واپس سرکاری ذمہ داری پر چلے گئے تھے۔ سمیع الحسن برنی آتے ہیں تو انکے لیے یہ نیا کام نہیں ہو گا۔ کچھ نئے چہروں سے انکی ملاقات ہو گی کچھ پرانے دوستوں سے کچھ انہیں نئے دوست بنانا ہوں گے۔کرکٹ کمیٹی کی فارمیشن اور بورڈ چیئرمین احسان مانی کا وسیم اکرم کی طرف جھکاو پر آئندہ بات ہو گی۔