• news

بظاہر نواز شریف، مریم، صفدر کی سزا بحال کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں: چیف جسٹس

اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت)سپریم کورٹ آف پاکستان میں سابق وزیر اعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی سزا معطلی کے خلاف نیب کی اپیل کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ضمانت کے مقدمے میں حتمی فیصلے دینے کی یہ عجیب مثال ہے بظاہر نواز شریف، مریم اور صفدر کی سزا بحال کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہائی کورٹ نے ضمانت کے مقدمہ میں کیس کے تمام حقائق کا جائزہ لیا ہے، عدالت نے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث اور نیب پراسیکیوٹر اکرم قریشی کو تحریری معروضات پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت12نومبرتک ملتوی کردی ہے۔کیس کی سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس مشیر عالم اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے کیس کی سماعت کی تو چیف جسٹس نے نواز شریف کے وکیل کے دلائل پر ریما رکس دیے کہ سخت ذمہ داری کے اصول قانون کے تحت نواز شریف نے ثابت کرنا تھا کہ لندن فلیٹس جائز آمدن سے خریدے گئے، پانامہ لیکس کیس میں تو عدالت نے مہربانی کی اور معاملہ ٹرائل کورٹ کو بھیجا ورنہ یہ عدالت حاصل آئینی اختیارات کے تحت خود انکوائری کرکے فیصلہ کرتی اور یہاں سے ملزم جیل بھیج دیتی۔ چیف جسٹس نے کہا خصوصی قوانین کے تحت گرفتار ملزمان کی ضمانت کے لئے عدالت نے ایک کھڑکی کھول کر گنجائش پیدا کی لیکن اس کے ذریعے ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں خامیاں نکال کر اس کی بنیاد پر ملزمان کو ضمانت پر رہا کیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ضمانت کے عام مقدمات میں بھی کیس کے میرٹ کو ڈسکس نہیں کیا جاتا جبکہ جہاں قانون کے تحت ضمانت کی گنجائش موجود نہ ہو اور ہائی کورٹ رٹ دائرہ اختیار کے تحت ضمانت کے معاملے کا جائزہ لے رہی ہو وہاں سختی سے صرف ملزم کو درپیش غیر معمولی مشکلات کو دیکھا جاتا ہے لیکن زیر غور کیس میں ہائی کورٹ نے تمام حقائق کا جائزہ لے کر میرٹ کو ڈسکس کیا، اس طرح کے مقدمات میں ہائی کورٹ کا یہ طرز عمل کبھی نہیں رہا۔ چیف جسٹس نے کہا ہائی کورٹ نے ملزمان کی رٹ پٹیشنز پر پہلے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے قرار دیا کہ اس معاملے کو اپیلوں کے ساتھ دیکھا جائے گا اور بعد میں پانچ چھ روز مسلسل رٹ پٹیشنز کی سماعت کی گئی جب نیب معاملہ ہمارے سامنے لے آیا تو ہم نے مداخلت نہیں کی اور ہائی کورٹ کورٹ پٹیشنز سننے دیا لیکن ہائی کورٹ نے تمام حقائق کا احاطہ کرکے سزا معطل کردی کیا اس طرح کے فیصلوں کو برقرار رکھا جاسکتا ہے؟۔ شریف خاندان کی سزا معطلی کے خلاف سماعت کے دوران نیب کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ضمانت کے مقدمات میں عدالتیں مقدمے کے حقائق پر بات نہیں کرسکتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی ملزم کی زندگی خطرے میں ہو یا اپیل عرصے تک مقرر نہ ہو تو ملزم کی ضمانت کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے نیب کے وکیل کو کہا آپ پہلے بھی یہ دلائل دے چکے ہیں اور آپ کے دلائل پر ہم نے ملزمان کو نوٹس جاری کیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ضمانت کے مقدمات میں عام مقدمات کی مثالیں موجود ہیں، عدالت عام مقدمات میں بھی حقائق کا جائزہ نہیں لیتی جبکہ یہ خاص مقدمہ ہے۔چیف جسٹس نے کہا ہائیکورٹ نے تمام حقائق کا جائزہ لیا، شاید یہ میری دانست میں پہلا مقدمہ ہے جس میں ہائیکورٹ نے تمام حقائق کا احاطہ کیا۔چیف جسٹس نے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہم خواجہ حارث صاحب کو سن لیتے ہیں۔خواجہ حارث نے کامیاب اینجپوپلاسٹی پر چیف جسٹس کو مبارکباد دی اور کہا کہ آپ کو آرام کرلینا چاہیے تھا مقدمے کی سماعت کسی اور دن کے لیے مقرر کردیں۔چیف جسٹس نے کہا یہ مقدمہ ایک فرد کا نہیں بلکہ اصول قانون میں بہتری کا معاملہ ہے، اس لئے ڈاکٹر کئے منع کرنے کے باجود کیس کی حساسیت نے ذمہ داریوں کی ادائیگی پر مجبور کیا۔خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اصل فیصلہ صرف 12 صفحات پر مشتمل ہے باقی صفحات میں فریقین کی گزارشات کو تحریر کیا گیا ہے۔وکلا کے دلائل میں ٹرائل کورٹ کی خامیوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔خواجہ حارث نے کہا کہ خصوصی مقدمات میں سزا کی معطلی کا آغاز قائم علی شاہ کیس سے ہوا اور بعد میں اسفندیار ولی خان کیس سمیت دیگر فیصلوں میں سپریم کورٹ نے رٹ دائرہ اختیار کے تحت ہائی کورٹ کی طرف سے ضمانت کو جواز بخشا۔چیف جسٹس نے کہا کہ نیب نے رٹ پٹیشنز کی سماعت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا لیکن ہم نے صرف رحم دلی کے تحت نیب کی درخواست مسترد کی تھی، ہائی کورٹ ضمانت کی درخواست کا فیصلہ کرتے ہوئے کیسے کہہ سکتی ہے کہ شواہد میں نقائص ہیں، ہم کیوں نہ یہ فیصلہ کالعدم کردیں۔چیف جسٹس نے خواجہ حارث کو کہا کہ کوئی ایک ایسا فیصلہ بتا دیں جو اس طرح کا ہو، ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھنے کا کوئی آپشن نہیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دوں گا لیکن زیر غور کیس میں الزام آمدن سے زائد اثاثوں کا ہے لیکن ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں آمدن اور اثاثوں کی مالیت کا تخمینہ موجود نہیں ہے۔چیف جسٹس نے کہا ذرائع آمدن سے زیادہ اثاثے تھے یا نہیں یہ تو آپ کے موکل نے ثابت کرنا تھا، آپ مقدمے کے حکم کے وہ نکات بتائیں جن پر اعتراض ہے۔خواجہ حارث نے دلائل میں کہا کیس میں کہا گیا کہ ایون فیلڈ کی جائیداد میرے موکل کی ہے جو ان کے معلوم ذرائع آمدن سے زائد ہے، فیصلے میں نہ تو ذرائع آمدن کی تفصیل ہے اور نہ ہی جائیداد کی مالیت بتائی گئی جس پر چیف جسٹس نے کہا یہ بات نہیں ہے ، ذرائع آمدن تو آپ نے بتانے تھے۔عدالت کے استفسار پر خواجہ حارث نے کہا کہ لندن فلیٹس حسین نواز کی ملکیت ہے لیکن چلو مان لیتے ہیں کہ وہ نواز شریف کی ہیں تو نیب نے ثانت کرنا تھا کہ اس کے ذرائع غلط تھے جس پر چیف جسٹس نے کہا سخت ذمہ داری کے اصول قانون کے تحت تو نواز شریف کے خلاف مقدمہ ٹرائل کورٹ میں جانا ہی نہیں چاہیے تھا، اس معاملے کو تو سپریم کورٹ کو ہی طے کر دینا چاہیے تھا۔چیف جسٹس نے کہا اثاثے بنے کیسے کہیں سے اڑ کر تو نہیں آگئے تھے، کہیں سے من و سلوی تو نہیں اتر آیا، پیسے درختوں پر تو نہیں اُگے، قطری خط سمیت اثاثوں کی کئی کہانیاں سنائی گئیں، ملزم نے ثابت کرنا تھا کہ اثاثے کس کے ہیں۔ خواجہ حارث نے کہا سر ایسا نہیں ہے، یہ قانون نہیں ہے، قانون یہ ہے کہ جب تک ثبوت نہ ہو کوئی مجرم نہیں، جس پر چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا قانون وہ ہو گا جو ہم طے کریں گے ڈیکلریشن ہم دیں گے ، ماتحت عدالتوں کے بعد یہ اپیکس کورٹ ہے جس کا کام آئین کی تشریح کرنا ہے،آپ نے اثاثے تسلیم کئے ،آپ کے ساتھ رعایت برتی گئی۔چیف جسٹس نے خواجہ حارث کو کہا یہ نہ ٹرائل کورٹ ہے نہ ہائیکورٹ، یہ سپریم کورٹ ہے، آپ اپنے جذبات قابو میں رکھیں اور عدالت کا سوال سن کر اس کا جواب دیں۔خواجہ حارث نے کہا کہ وہ عدالت کو آپ کے دیئے گئے فیصلے بطور مثال بتا دیتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ میری ذاتی ججمنٹس نہیں، ججمنٹس سپریم کورٹ کی ہوتی ہیں کسی کی ذاتی نہیں، آپ اس معاملے پر زیادہ دلائل دینا چاہتے ہیں تو کوئی اور دن رکھ لیتے ہیں،آپ کو دلائل کے لئے ایک دن ملے گا، بعدازاں عدالت نے فریقین سے تحریری معروضات طلب کر لئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سزائوں کی معطلی کے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے نے فقہ قانون تباہ کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ حارث بتائیں احتساب عدالت کے فیصلے میں کیا نقائص ہیں، اصول قانون میں ملزم کو ثابت کرنا تھا اثاثے کس کے ہیں؟ اثاثے بنے کیسے؟ مزید سماعت 12 نومبر تک ملتوی کر دی گئی۔

ای پیپر-دی نیشن