تھر میں غذائی قلت کے باعث بچوں کی ہلاکت کمیشن تشکیل
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت)سپریم کورٹ میںتھر میں غذائی قلت کے باعث بچوں کی ہلاکت کیخلاف ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تھر پارکر کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیتے ہوئے کمیشن کو تھر میں خوراک، پانی سمیت دیگر سہولیات کی فراہمی سے متعلق پندرہ دنوں میں جائزہ لیکر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔از خود نوٹس کیس کی سماعت جسٹس اعجازِ الااحسن کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کی۔ اس موقع پر جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ دو ہزار سولہ میں بھی سندھ حکومت کی مرضی سے کمیشن بنایا گیا، جس کے آج تک نتائج سامنے نہ آسکے،تفصیلات بتائیںکہ کتنے ڈاکٹرز کو تھر بھیجا گیا اور انھوں نے انکار کیا،تھر جانے سے انکار کرنے والے ڈاکٹرز کیخلاف کیا کارروائی کی گئی،کلرک حکم عدولی کرے تو اسے نوکری سے نکالنے کی دھمکی دے دی جاتی ہے،اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت میںکمیٹی کی تیار کردہ رپورٹ پیش کی۔ سندھ حکومت کی طرف سے عدالت میں جمع کروائی گئی۔ رپورٹ کے مطابق تھر میں غذائی قلت پر قابو پانے کیلئے وزیر اعلی سندھ نے اجلاس منعقد کیاجس میں کابینہ کے اراکین،سندھ کی میڈیکل یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز سمیت اعلی حکام نے شرکت کی،سندھ حکومت نے ضلع تھرپارکر کے 513 علاقوں کو متاثرہ قرار دیا،متاثرہ علاقوں میں 50 کلو گندم فی گھر تین ماہ کیلئے دینے کا اعلان کیا گیاہے،تھر میں 14 اکتوبر سے 2 نومبر تک 42 ہزار مریضوں کا طبی معائنہ کیا گیا،مختلف رپورٹس کیمطابق تھر میں حاملہ خواتین آگاہی نہ ہونے اور مناسب خوراک نہ ملنے کیوجہ سے مشکلات کا شکار ہیں،بچے بھی غذائی قلت کا شکار ہیںجولائی سے اکتوبر تک پانچ لاکھ سے زائد جانوروں کو ویکسینیشن دی گئی،تھر فاو¿نڈیشن کے منافع کا دو فیصد مقامی ترقی پر خرچ کیا جائے گا، سندھ حکومت کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ غذائی اجناس کی فراہمی اور علاج معالجے سمیت دیگر سہولیات کی فراہمی کا سلسلہ شروع ہوچکا۔
تھر کیس