• news

قومی اسمبلی : ”ڈی جی نیب نے خفیہ دستاویزات عام کیں“ اپوزیشن کا ہنگامہ

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی، نامہ نگار)قومی اسمبلی اجلاس میں سپیکر اسد قیصر نے اپوزیشن کو ڈی جی نیب لاہور کی جانب سے میڈیا پر انٹرویوز دینے کیخلاف تحریک استحقاق پیش کرنے کی اجازت نہ دی،اپوزیشن نے تحریک استحقاق قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کروا دی ہے،سپیکر قومی اسمبلی نے کہا ہے کہ رولز کے مطابق تحریک استحقاق آئے گی تو اسے لیں گے، تحریک استحقاق کی فائل آئے گی تو اس پر قانونی رائے لوں گا۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیئرمین نیب کے کہنے پر منتخب ارکان کو بے عزت کر رہا ہے جبکہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ اپوزیشن کی تحریک استحقاق زیرتفتیش کیس کی تحقیقات پر اثر انداز ہونے کی کوشش اور آئین کے خلاف ہے، تحریک استحقاق نہیں بنتی۔ جمعہ کو قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت ہوا، جہاں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ نیب چیئرمین کی ہدایت پر نیب افسر اپوزیشن کا میڈیا ٹرائل کر رہا ہے، یہ تاریخ میں کبھی نہیں ہوا، نیب افسر دستاویزات کا میڈیا پر حوالہ دے رہا ہے جو خفیہ ہیں، نیب افسر نے خفیہ دستاویزات عام کیں، جو باتیں حکومتی وزراءکر رہے تھے وہی ڈی جی نیب کر رہا ہے انہوں نے کہا جو حکومت سے تنخواہ لیتے ہیں ان لوگوں سے احتساب نہیں چاہتے، نیب افسر اپوزیشن کی ساکھ کو خراب کررہا ہے، نیب افسر ٹی وی پر وہ چیزیں بتا رہا ہے جو پبلک نہیں ہوسکتیں۔شاہد خاقان عباسی نے سپیکر سے استدعا کی کہ اس معاملے پر اپوزیشن کی تحریک استحقاق پر بحث کا موقع دیا جائے،شاہد خاقان عباسی نے کہاکہ اگر حکومت تحریک استحقاق سے بھاگنا چاہتی ہے تو بتادے، اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر آپ ایوان کی ساکھ کا تحفظ نہیں کریں گے تو کون کرے گا۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی واضح ہدایات ہیں کہ تحقیقاتی ادارے کسی کی عزت نہ اچھالیں،انہوں نے کہا کہ خود اس نیب افسر کی جعلی ڈگری ہے اور آج تک نیب اس پر فیصلہ نہیں کر سکا ہے،ہماری تحریک استحقاق کو منظور کیا جائے اور اس پر بات کرنے دی جائے، رولز 96کے تحت یہ سپیکر کے اختیار میں ہے، میں تحریک استحقاق کو پڑھوں اور سپیکر فیصلہ کریں کہ استحقاق مجروح ہوا یا نہیں ،ایک سرکاری افسر نے استحقاق مجروح کیا اور قانون کو توڑ ا ہے،ہاں اگر آپ رولز کے پیچھے چھپنا چاہتے ہیں تو پھر ہاﺅس چلانا مشکل ہو جائے گا۔ پیپلز پارٹی کے نوید قمر نے کہا کہ قواعد کے مطابق تحریک استحقاق سپیکر کے علم میں لاکر ایوان میں کسی بھی وقت پیش کی جاسکتی ہے،اگر ارکان کا اس طرح سے میڈیا ٹرائل شروع کردیا گیا تو یہ سلسلہ نہیں رکے گا، جواب دیا جائے کہ پیمرا نے اس کا نوٹس کیوں نہیں لیا،یہ تمام ممبران کی بے عزتی ہے،اگر ایک دن میں پانچ ٹاک شوز میں نیب کا افسر آیا تو اس کا یہ طے شدہ تھا ۔ مسلم لیگ(ن) کے رہنما رانا تنویر حسین نے کہا کہ نیب افسر نے میڈیا ٹرائل کیا، یہ حکومت اور نیب کا گٹھ جوڑ ہے، کوئی افسر کسی آشیرباد کے بغیر میڈیا پر اتنی بڑی باتیں نہیں کرسکتا۔نیب افسر نے میڈیا ٹرائل کیا، یہ حکومت اور نیب کا گٹھ جوڑ ہے،جب وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بات کرنا چاہی تو مسلم لیگ(ن) کے اراکین اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے،مرتضیٰ جاوید عباسی نے کہا کہ وزیر اطلاعات کس طرح اپوزیشن کی تحریک استحقاق پر بات کر سکتے ہیں ،تمام لیگی اراکین نے شور مچایا ،لیکن سپیکر نے وزیر اطلاعات کو بات کرنے کی اجازت دے دی۔جس پر وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا ٹرائل کا الزام اپوزیشن لگا رہی ہے،دیکھنا ہوگا کہ اس کا آغاز کس طرح ہوا، وزیر قانون نے کہا تھا کہ معاملہ زیر سماعت ہے ایوان میں بات نہ کی جائے لیکن اپوزیشن لیڈر نے ایوان سے خطاب کرکے تحقیقات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ فواد چودھری نے کہا ماضی میں لیڈر آف اپوزیشن نے اسمبلی میں نیب کا میڈیا ٹرائل کیا، اپوزیشن لیڈر کو نیب تحقیقات پر اسمبلی میں بات نہیں کرنی چاہیئے تھی،انہوں نے تین گھنٹے یہاں پر اپنا مدعا بیان کیا۔کسی کا بھی نیب کی کارروائیوں پر اثر انداز ہونا غیر مناسب عمل ہے،آئین کا آرٹیکل4بھی ہے جس کے مطابق ہر کوئی قانون کے سامنے برابر ہے،یہ نہیں کہ میں ممبر اسمبلی ہوں میں جو مرضی بات کروں لیکن دوسرا میرے خلاف بات نہ کرے،آپ تحریک استحقاق کا ٹول استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ بعدازاں اپوزیشن کی جانب سے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں تحریک استحقاق جمع کروا دی گئی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ ڈی جی نیب نے ارکان اسمبلی کی ساکھ مجروح کرنے کی کوشش کی، ڈی جی نیب نے چیئرمین نیب کی منشا سے ٹی وی چینلز کو انٹرویو دیا جس میں اپوزیشن ارکان کا میڈیا ٹرائل کیا، ڈی جی نیب نے خفیہ تحقیقات اور دستاویزات میڈیا پر دکھائیں لہذا معاملے پر تحریک استحقاق کی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ علاوہ ازیں قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران سوالوں کے جواب موصول نہ ہونے اور وزراءکی عدم حاضری پر سپیکر اسد قیصر حکومت پر برہم ہو گئے اور احتجاجاً اجلاس کو 10منٹ کے لئے ملتوی کرتے ہوئے متعلقہ سیکرٹریوں کو چیمبر میں طلب کر لیا،جبکہ حکومتی رکن راجہ ریاض بھی وزرا کی عدم موجودگی پر برس پڑے۔ انہوں نے کہا کہ وزراءکا نہ آنا سپیکر اور پورے ایوان کی توہین ہے۔ سوالوں کے جواب نہ آنے پر حکومت کو شدید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا،اپوزیشن ارکان نے سوالوں کے جواب موصول نہ ہونے پر احتجاج کیا جبکہ حکومتی رکن راجہ ریاض بھی اپنے وزرا پر برس پڑے ،راجہ ریاض نے کہا کہ اس بات پر ایکشن لیا جائے کہ جن وزرا کے بارے میں سوال ہیں وہ کیوں نہیں آئے ،اور جن وزارتوں کے سوال ہیں ان سیکرٹریوں کو بھی آکر بیٹھنا چاہئے۔ سپیکر نے ایوان کو بتایا کہ میں نے تمام متعلقہ سیکرٹریوں کو بلایا ہے اور واضح ہدایت دی ہے کہ آئندہ ایسے رویے کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ رکن اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی کے سوال کے تحریری جواب میں وزیر خزانہ اسد عمر نے ایوان کو بتایا کہ ایف بی آر کے ریکارڈ کے مطابق پانامہ لیکس میں 444 پاکستانیوں کے نام کی نشاندہی کی گئی ہے ،ایف بی آر نے پانامہ لیکس کے ضمن میں سپریم کورٹ میں کوئی پٹیشن دائر نہیں کی ،فیلڈ افسران نے انکم ٹیکس آرڈیننس کی متعلقہ دفعہ کے تحت 294 کیسوں میں نوٹس جاری کر دیئے ہیں تاہم بقایا 150 کیسوں میں نوٹس جاری نہیں کیئے جا سکے جس کی وجہ یہ ہے کہ نامکمل کوائف کی بناءپران کیسوں کا سراغ نہیں لگایا جا سکا،242 کیسوں میں معلومات کی موصولی کے وقت کاروائی کرنے کی مقررہ مدت گزر چکی تھی اس لئے کارروائی شروع نہیں کی جاسکی تاہم بعدازاں کارروائی کرنے کی مد میں قانونی تبدیلیوں سے اضافہ کرنے کے بعد کیسوں کے ضمن میں کارروائی کی جارہی ہے ،4افراد کے غیر مقیم ہونے کی بنیاد پر کارروائی روک دی گئی ہے ،جبکہ 12افراد وفات پاچکے ہیں،15کیسوں میں آڈٹ کی کاروائیاں مکمل کر لی گئی ہیں، 15کیسوں میں 10.9 بلین روپے کی ڈیمانڈ بنائی گئی ہے جس میں سے 6.2بلین روپے وصول کر لئے گئے ہیں پانامہ کے باقی کیسوں میں کاروائیاں جاری ہیں، وزیر مملکت برائے خزانہ حماد اظہر نے ایوان کو بتایا کہ بیرون ملک 96 ہزار پاکستانیوں کے اکاﺅنٹس کا ڈیٹا ایف بی آر نے کو مل چکا ہے ، یہ 96 ہزار اکاﺅنٹس پانامہ لیکس کے علاوہ ہیں۔ اس موقع پر مسلم لیگ(ن) کے رہنماءمحسن شاہ نواز رانجھا نے کہا کہ وزیر صاحب یہ بتائیں کہ علیمہ خان کی بیرون ملک جائیداد کے حوالے سے کیا اقدامات کئے گئے جس پر وزیر مملکت خزانہ حماد اظہر نے کہا کہ جس کا نام بھی آیا اس کے خلاف کارروائی ہو گی۔ رکن اسمبلی شگفتہ جمانی کے سوال کے تحریری جواب میں وزارت منصوبہ بندی نے ایوان کو بتایا کہ وزیراعظم کے دورہ چین دوران مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہوئے۔ بعدازاں نماز جمعہ کی اذان کے بعد سپیکر نے اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کےلئے ملتوی کردیا۔ شاہد خاقان عباسی نے کرپشن کے اےشو پر ڈی جی نیب لاہور شہزاد سلیم کو مناظر ے کا چیلنج دے دےا ہے اور کہا ہے کہ ٹی وی پر اکیلے بیٹھ کر اپوزیشن پر الزام تراشی کرنے کی بجائے ہمارے ساتھ بےٹھ کر الزامات لگائےں ہم احتساب سے گھبراتے نہیں ، مسلم لےگ (ن) احتساب شروع کےا جائے اور سب سے پہلے میری اور میری کابینہ کا احتساب شروع کیا جائے۔ احتساب ہو انتقام نہیں ہونا چاہئے۔ ڈی جی نیب لاہور نے اپوزیشن کا میڈیا ٹرائل کر کے چےف جسٹس کے واضح احکامات کی خلاف ورزی کی ہے لہٰذا انہےں اس خلاف ورزی کا سوموٹو اےکشن لینا چاہئے۔ نیب کو سیاست پر کنٹرول کرنے کےلئے استعمال کیا جا رہا ہے، ڈی جی نیب لاہور اپنی ڈگری میڈیا کو دے دےں، اگر ان کی ڈگری جعلی ہے تو ان کا بھی احتساب ہونا چاہیے، ہم اپنا کیس قوم کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں وہ فیصلہ کرے کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا۔ وہ خواجہ محمد آصف، رانا ثناءاللہ، احسن اقبال، مرتضیٰ جاوید عباسی اور مریم اورنگزیب کے ہمراہ پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ بدقسمتی سے وزراءپارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر جھوٹ بولتے ہیں، کیا یہ لوگ صوبوں میں پانی کے معاملے پر جنگ کروانا چاہتے ہیں، بات بڑی سیدھی ہے کہ بولو گے تو نیب کا کیس بنے گا، واضح ہوگیا کہ حکومت کی ایما پر سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت صرف مسلم لیگ (ن) انتقام کے نشانے پر ہے، مفروضوں پر کیس بنائے جا رہے ہیں، اگر نیب کو تفتیش کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو ریکوڈک منصوبے کی تحقیقات کرے، مسلم لیگ (ن)، نوازشریف، شہبازشریف اور خواجہ سعد رفیق کے احتساب کا جو معیار ہے وہی دیگر لوگوں کےساتھ اپنایا جائے، اگر انتقام ہی لینا ہے تو ہم انتقام سے گھبراتے نہیں، ہم نے پہلے مشرف کے انتقام کا بھی سامنا کیا ، اس وقت ملک میں نام نہاد جمہوری حکومت ہے۔ ایچ ای سی نے ڈی جی نیب لاہور سلیم شہزاد کی ڈگری جعلی ہونے کی خبر کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایچ ای سی نے ڈی جی نے کہا ایچ ای سی نے ڈی جیب نیب کی ڈگری اصلی ہونے کی تصدیق کی تھی، ایچ ای سی کی ڈائریکٹر میڈیا نے رابطہ کرنے پر ”نوائے وقت“ کو بتایا کہ ہائر ایجوکیشن کمشن نے ڈی جی نیب کی ڈگری اصلی ہونے کی تصدیق کی تھی، ادارہ اس پر قائم ہے، الخیر یونیورسٹی کی تمام ڈگریاں جعلی نہیں ہیں۔ ذرائع کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمشن کی طرف سے جاری ایک دستاویز میں بھی کہا گیا تھا کہ ڈی جی نیب سلیم شہزاد کی ڈگری تصدیق شدہ ہے۔ دستاویز 20 جون 2018ءکی ہے جس میں سلیم شہزاد کی ایم ایس سی کمپیوٹر سائنس کی ڈگری کو تسلیم شدہ کہا گیا ہے۔ ترجمان نیب کے مطابق چیئرمین نیب نے تمام نشریاتی اداروں سے ڈی جی نیب لاہور کی گفتگو کا ریکارڈ طلب کرلیا۔ ترجمان نے بتایا کہ ڈی جی نیب کی گفتگو کا ریکارڈ اس لئے طلب کیا گیا کہ یہ دیکھنا مقصود ہے کہ کیا حقائق کے برعکس ڈی جی نیب نے کوئی بات کی؟ اور قانون کی روشنی میں کارروائی کی جاسکے۔ ترجمان نیب نے کہا کہ نیب تمام معزز اراکین اسمبلی کا احترام کرتا ہے۔ اراکین اسمبلی کا استحقاق مجروح ہوا تو کیسے ہوا۔ مزید برآں سپریم کورٹ نے ڈی جی نیب لاہور کی ڈگری سے متعلق کیس سماعت کیلئے مقرر کردیا۔ دو رکنی بنچ 12نومبر کو شہزاد سلیم کی ڈگری سے متعلق کیس کی سماعت کرے گا جس کیلئے عدالت نے درخواست گزار کو نوٹس جاری کردیا ہے۔
قومی اسمبلی

ای پیپر-دی نیشن