مشرف‘ زرداری ملک قیوم کے اثاثے خفیہ رکھنے کا فیصلہ ‘ کیا شواہد ہیں سوئس بینکوں میں پڑا پیسا پاکستان کا ہے : سپریم کورٹ
اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ آف پاکستان نے این آر او سے قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے لئے دائر درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فریقین سے تحریری دلائل طلب کرلئے ہیں۔ جبکہ سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم اور سابق صدور پرویز مشرف اور آصف علی زرداری کے اثاثوں کی تفصیلات خفیہ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے جمعہ کو کیس کی سماعت کرتے ہوئے درخواست گزار کو ہدایت کی کہ وہ درخواست کے قابل سماعت ہونے کے بارے عدالت کو مطمئن کریں جبکہ اٹارنی جنرل اور نیب کو سوئس مقدمات اور این آر او کا جائزہ لے کر جواب داخل کرنے کا حکم دیا اور قرار دیا کہ جواب اور دستاویزات آنے کے بعد درخواست قابل سماعت ہونے کا فیصلہ کریں گے۔ عدالت نے درخواست کے قابل سماعت ہونے کا فیصلہ ہونے تک ملک قیوم ،پرویز مشرف اور آصف علی زرداری کے اثاثوں کی تمام تفصیلات سر بمہر رکھنے کی ہدایت کی اور آبزرویشن دی کہ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی فیصلہ آئین وقانون کے مطابق کیا جائے گا۔ دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ سوئس بنکوں میں پڑا پیسہ پاکستان کا ہے اس کے کیا شواہد ہیں؟، سوئس بینکوں کے اکاﺅنٹس کی شناخت کیا ہے، وکیل آصف زرداری کہتے ہیں وہ تمام کیسز سے بری ہوچکے، یہ تو واضح ہے کہ سوئس اکاونٹس میں 60 ملین ڈالر تھے لیکن دیکھنا ہے کہ 60 ملین ڈالر کس کے تھے، کہاں گئے اور بینیفشری کون تھا؟۔کیس کی سماعت ہوئی تو جسٹس اعجاز الاحسن نے درخواست گزار فیروز شاہ گیلانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں درخواست کے قابل سماعت ہونے کے بارے مطمئن کریں، کیا 184/3کے دائرہ اختیار میں اس کیس کو سنا جاسکتا ہے؟۔ جس کے جواب میں درخواست گزار نے دلائل کے لئے مہلت کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ابھی تک سارے کاغذات نہیں دیئے گئے لیکن این آر او ججمنٹ میں کہا گیا کہ سوئس بینکوں میں دولت پاکستانیوں کی ہے اورآصف زرداری ساری دولت باہر لے گئے۔ان کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری نے پاکستان کا پیسہ سوئس بینکوں میں رکھا، سوئس اکاونٹ میں موجود 60 ملین ڈالر پاکستان کی عوام کو ملنے چاہیے، زرداری کے پیر نے بھی کہا کہ اس کے 60 ملین ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ ساری اخباری باتیں ہیں اگر کوئی مواد موجود ہے تو بتائیں یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے، آپ کو ہمیں مطمئن کرنا ہوگا، آصف زرداری کے وکیل کہتے ہیں کہ آصف زرداری تمام مقدمات میں بری ہو چکے ہیں، کیا بریت کے بعد 184/3کے تحت مقدمہ دوبارہ کھولا جا سکتا ہے،فاضل جج نے درخواست گزار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ بتائیں دستاویزات کہاں پڑی ہیں ہم سنی سنائی باتوں پر فیصلہ نہیں کریں گے، عدالت کے سامنے ٹھوس مواد ہونا چاہیے۔درخواست گزار فیروز شاہ گیلانی نے کہا کہ یہ معلومات نیب نے دینی ہیں کیونکہ معلومات مختلف ریفرنسز میں پڑی ہیں۔آصف علی زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آصف زرداری ایک طویل ٹرائل کے بعد بری ہوئے اور آٹھ سال جیل میں رہے لیکن معاملہ ختم ہی نہیں ہورہا حالانکہ 60 ملیں ڈالر آصف زرداری کے نام پر نہیں تھے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ این آر او کا معاملہ ماضی کا حصہ بن چکا، آئینی درخواست میں دوبارہ ٹرائل کرنا مناسب نہیں۔عدالت نے حکومتی وکیل کے زبانی دلائل سے اتفاق نہیں کیا اور ہدایت کی کہ اٹارنی جنرل اور نیب سوئس مقدمات اور این آر او کا جائزہ لے کر جواب داخل کریں ۔درخواست گزار نے آصف زرداری، پرویز مشرف اور ملک قیوم کے بیان حلفی فراہم کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ بیان حلفی کا جائزہ لے کر وہ عدالت کی بہتر طور پر رہنمائی کرسکے گا کہ درخواست قابل سماعت ہے یا نہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا ملک قیوم کے اثاثوں کی تفصیلات جمع ہوگئی ہیں جس کے جواب میں ان کے وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ تفصیلات بیان حلفی کے ساتھ جمع کردی گئی ہیں۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت تین ہفتے کے لئے ملتوی کرتے ہوئے معاملے کے قابل سماعت ہونے کے بارے تحریری دلائل جمع کرنے کی ہدایت کی۔
سپریم کورٹ
این آر او کیس