• news
  • image

اوور سیز پاکستانی روز مرتے ہیں،روز جیتے ہیں

ہمیں ہر مشکل کے وقت اوور سیز پاکستانی یادا ٓتے ہیں اور ہم ہر مشکل وقت میں اوور سیز پاکستانیوں کو لوٹتے ہیں۔ بے توقیر کرتے ہیں۔ میںنے پیرس کے معروف ڈریس ڈیزائنر کی کتاب پیرس میں دوسرا جنم کیا ہاتھ میں لی کہ میرے سامنے کئی قیامتوں کے اوراق کھل گئے۔ بھٹی کی قیامت کا میں عینی شاہد ہوں، ہم کہتے ہیں کہ اوورسیز پاکستانی سرمایہ کاری لائیں۔ بھٹی نے یہی گناہ کیاا ور ایسے دیدہ زیب اور دلکش طریقے سے گناہ کیا کہ اس کے سرمائے سے بننے والے ہسپتال پر کسی سیون اسٹار ہوٹل کا گمان ہوتا تھا، مگر بھٹی کو سننا پڑاکہ وہ لٹیرا ہے۔ چور ہے ڈاکو ہے۔بھٹی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس کے ساتھ یہ سلوک کیوں روا رکھا جا رہا ہے اور وہ بھی کوئی ایک سو لائیو کیمروں کے سامنے جنہوںنے یہ ٹوٹے چسکے لے کر اپنے چینلز پر چلائے اور کوئی کسر باقی تھی تو سوشل میڈیا پر انہیں چلا دیا، بھٹی کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہا۔ اس کی ایک بیٹی تھی جو نیویارک میں رہائش پذیر تھی۔ وہ ایک عرصے سے باپ سے نہیں ملی تھی مگر وہ سنتی رہتی تھی کہ اس کے باپ نے صرف دولت ہی نہیں عزت بھی بہت کمائی ہے۔ اس معصوم نے اپنے باپ کے ٹوٹے سوشل میڈیا پر دیکھے تو اس کی ا ٓنکھوں سے آنسووں کی جھڑی لگ گئی۔وہ نہیں سمجھ پا رہی تھی کہ اس کے باپ کو کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے۔
یہ ایڈنبرا کا قصہ ہے۔ میاںنوازشریف وزیر اعظم تھے اور کامن ویلتھ سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لئے وہاں موجود تھے، اوورسیز پاکستانیوںنے اپنے ملک کے وزیر اعظم کی عزت افزائی کے لئے ایک ہوٹل میں چائے کا اہتمام کیا۔ کوئی بیس افراد جمع تھے۔ان میں محمد سرور بھی تھا جسے برطانیہ میں پہلے پارلیمنٹرین کاا عزاز حاصل ہوا تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف اس چھوٹے سے کمرے میں آئے اور گردن اکڑائے اسٹیج پر جا کر بیٹھ گئے۔ محفل میں موجود حاضرین سے سوال جواب کا سلسہ شروع ہوا۔ محمد سرور نے بھی کوئی سوال پوچھا تو وزیر اعظم نے منہ دوسری طرف موڑلیا۔ نہ تو سرور کے سوال کا جواب دیا،نہ ان کی طرف دیکھنا گوارا کیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ محمد سرور جان کنی کی کیفیت میں ہے۔ یہی محمد سرور پاکستان میں سیاست کرنے آیا تو اس وقت تک نواز شریف کی قربت حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ اسے پنجاب کا گورنر بنایا گیا۔ وہ گورڈن براﺅن فنڈ سے صاف پانی کی فراہمی اور تعلیم کے فروغ کے لئے بہت بڑی رقم لانا چاہتا تھا مگر شہباز شریف کو اس کا یہ کر دار پسند نہ آیا، محمد سرور ایک بار پھر جان کنی کی کیفیت میں تھا۔اسے ن لیگ چھوڑناپڑی اور وہ تحریک انصاف میں چلا گیا۔ اس نے اسے پھر سے گورنر پنجاب لگا دیا۔ محمدسرور کے لئے یہ ایک نیا جنم تھا۔
مانچسٹر کے چودھری غلام محی الدین جو برطانیہ کی تحریک استقلال کے صدر تھے۔ اپنے بھائی اور پورے خاندان کے بچوں کے ساتھ تین ماہ کے لئے پاکستان آئے۔ میں ان کے سواگت کے لئے لاہور سے ا سلام ا ٓباد گیا مگر گھنٹوں گزر گئے۔ یہ لوگ باہر نہ آئے۔ آخر کسٹمزاور امیگریشن سے پتہ کروایا تو پتہ چلا کہ ان لوگوں کے پاس کپڑوں سے بھرے ہوئے سوٹ کیس ہیں جن کی تلاشی لی جا رہی ہے۔چودھری صاحب کا بیٹا پہلی مرتبہ پاکستان ا ٓیا تھا ۔جب اس نے یہ بے عزتی دیکھی تو اس سے نہ رہا گیا۔ اس نے کہا کہ ڈیڈی ! اگلے جہاز کی سیٹیں بک کرواﺅ اور یہیں سے واپس چلو۔
یہ اسی کے عشرے کے اوائل کی بات ہے۔ گلاسگو سے شوکت بٹ پاکستان آئے۔ وہ شاکی تھے کہ انہوںنے ایک معروف ہاﺅسنگ اسکیم میں دو فلیٹ بک کروائے تھے جن میں سے ایک تو ضبط کر کیا گیا تھا کہ ا سکی قسطیں پوری نہیں دی گئیں اور دوسرے کا بھی قبضہ دینے سے گریز کیا جا رہا تھا۔ شوکت بٹ معرف شاعر قتیل شفائی کے داماد تھے چنانچہ ہم نے ایک وفد تشکیل دیا جس میں شعیب بن عزیز،مجاہد منصوری، شفیق جالندھری اور مجیب شامی شامل تھے۔ اس وفد نے اسکیم مالکان کے دفتر کے کئی چکر کاٹے ، آخر ہم تھک ہار گئے ا ور صرف ایک فلیٹ کا قبضہ دلوانے میں کامیاب ہوئے۔
انہی اوور سیز پاکستانیوںکے پاس وزرا قطار درقطار گئے اور قرض اتارو ملک سنوراو کے لئے ڈالر مانگے۔ ڈالر تو سب نے دئیے مگر یہ ڈالر اسٹیٹ بنک کے اکاﺅنٹ میں آج تک نہیں پہنچے۔اب ہمارے وزیر اعظم کہتے ہیں کہ بیرون ملک نوے لاکھ پاکستانی ہیں ۔ان میں سے ہر ایک ،ہزار ڈالر چندہ دے تو بھاشہ اور مہمند ڈیم بن جائے گا۔ اس اپیل پر حوصلہ افزا رد عمل سامنے نہیں آیا۔ ہر ٹی وی چینل پر ہر لمحے چندے کااشتہار بھی چل رہا ہے مگر تادم تحریر صرف ساڑھے سات ارب روپے اکٹھے ہو سکے ہیں جبکہ ضرورت ہے کوئی دو ہزار ارب روپے کی ۔ فرق آپ دیکھ لیجئے کہ کتنی رقم اور جمع کرنی پڑے گی۔ اوور سیز پاکستانیوںنے محمود بھٹی کی بے توقیری کو ہضم نہیں کیا۔ خود بھٹی آئندہ کے لئے پاکستان میں سرمایہ کاری سے بدظن ہو چکا ہے ۔ انٹرنیٹ پر پھیلی ہوئی خبروں کے مطابق وہ اپنا پیسہ واپس نکال کر لے جانا چاہتا ہے ا ور مزید کسی منصوبے کو شروع کرنے کے لئے تیار نہیں،میڈیا کی اطلاعات کے مطابق نجی ہسپتالوں کے ساتھ مفاہمت کی ایک یاد داشت پر دستخط ہو چکے ہیں مگر آج تک پیرس کے پاکستانی سفارت خانے کا کوئی کمرشل اتاشی بھی بھٹی کے پاس نہیں گیا کہ وہ پاکستان میں آئندہ سرمائیہ کاری نہ کرنے کا فیصلہ واپس لے لے۔اور جو ہوا ۔ اسے بھول جائے۔ مجھے نہیںمعلوم کہ کبھی نواز شریف اور شہباز شریف نے چودھری سرور سے معافی مانگی ہو کہ اسے گورنر شپ سے ناحق ہٹایا گیا۔ ممکن ہے نواز شریف نے ایڈنبرا میں محمد سرور کے ساتھ کی گئی بد سلوکی پر معذرت کر لی ہو کہ ا س کے بعد دونوں باہم شیر وشکر دکھائی دیتے تھے۔ مگر میں اس زخم کو آج تک نہیں بھولا۔ پتہ نہیں ہم نے یہ قانون کب بنایاا ور کیوں بنایا کہ دہری شہریت کے پاکستانی الیکشن نہیں لڑ سکتے۔ اس جرم میں کئی منتخب ارکان اپنی سیٹوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں، ان میں تازہ ترین ہارون اختر نے زخم کھایا ہے۔ اور میں ذاتی معلومات کی بنا پر آپ کو بتاﺅں کہ چودھری سرور کے چھوٹے بھائی بھی اسی پابندی کی وجہ سے الیکشن نہیں لڑ سکے۔ انہوںنے اپنی دہری شہریت چھوڑ دی تھی مگر اس کی اطلاع تاریخ گزرنے کے دو روز بعد الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی مگر اس وقت تک وہ کروڑوں روپے اپنی انتخابی مہم میں جھونک چکے تھے جو ضائع چلے گئے۔
میری یاد داشت کے مطابق صرف محترمہ بے نظیر بھٹو ایسی وزیر اعظم تھیں جو اوور سیز پاکستانیوں کو عزت دیتی تھیں۔ اقوام متحدہ کی گولڈن جوبلی میں شرکت کے لئے وہ نیویارک پہنچیں تو چودھری رشید کو بلا بھیجا۔ وہ کلنٹن فیملی کے دوستوں میں شامل تھے۔ نیویارک کے ہوٹل میں انہوں نے میرے ساتھ ناشتہ کیاا ور پھر ان نکات کی تفصیل بتائی جن پر وہ وزیر اعظم کو بریف کرنا چاہتے تھے، اس سفر میں محترمہ وزیراعظم پریسلر ترمیم کے خاتمے کی خبر لے کر واپس آئیں اور یوں ہمیں وہ ایف سولہ بھی ملنے کا راستہ ہموار ہوا جو ایریزونا کی ریت پر زنگ آلود ہو رہے تھے۔ ویسے بعد میں چودھری رشید اور محترمہ کے راسے بھی الگ ہو گئے ، کیوں ہوئے۔ میں نہیں جانتا۔نہ میںنے ٹوہ لگانے کی کوشش کی۔ بس میں دیکھتا تھا کہ چودھری رشید گجرات کے چودھریوں کے کیمپ میں کھلکھلاتے پھرتے تھے۔
اگرچہ میں لندن کے ن لیگی راہنما زبیر گل کو ناپسند کرتا تھا کہ اس نے کئی پرانے ن لیگی راہنماﺅں کو کہنی مار کر پیچھے پٹایا اورخود کونواز شریف کے بہت قریب کر لیا۔ اس کی خدمات کے عوض اسے الیکشن میں ٹکٹ دی گئی مگر شہباز شریف کی عدم دلچسپی سے وہ بری طرح شکست کھا گئے۔ میرا خیال ہے کہ وہ اس انجام کے مستحق نہ تھے جبکہ شہباز شریف نے اپنے نیو یارک کے ساتھی کیپٹن شاہین بٹ کو سینیٹر بنوا لیا تھا، یہ ا تار چڑھاﺅ اورسیز پاکستانیوں کو پسند نہیں آیااور وہ آئندہ سے ہمارے سیاستدانوں ہی سے نہیں، اپنے ملک سے بھی بد ظن ہو گئے ہیں، بھٹی کے ساتھ جو ہوا، اس نے جلتی پر تیل کا کام کیا،ا ب اس نقصان کا مداوا کون کرے گا۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

epaper

ای پیپر-دی نیشن