• news
  • image

بزعم خویش پاکستانی دانشور کے ساتھ ایک شام

اس کمرے میں پاکستان سے آئے ایک مقبول کالم نگار اوراینکر موجود تھے ۔ انکے نیلے رننگ شوز اور لال سپورٹس جیکٹ دیکھ کر پہلے مجھے وہم ہوا کہ شائد میں غلطی سے جم میں آگئی ہوں ۔ مگر وہ شاہد اور سیما ہاشمی کا محبت سے بھرادولت کدہ ہی تھا، جہاں ان صاحب کے اعزا میں عشائیہ تھا۔ شاہد صاحب اور سیما مجھے بہت عزت دیتے ہیں اور اسی چکر میںانہوں نے مجھے اس معزز مہمان کے ساتھ بٹھانے کی غلطی کر دی ،جس کے نیلے پائوں بار بار مجھے غیر سنجیدہ رویے کی طرف مائل کر رہے تھے ۔ پھر بھی جبر لازم تھا ،اندر کی تمام طاقتیں خود کو سنجیدہ رکھنے میں صرف کرتی رہی مگر پھر بھی کہیں کہیں کبھی کبھی کوئی ہلکا پھلکا فقرہ یا ہنسی کی پھوارنکل جاتی ۔مہمان میں وہ والا حس ِ مزاح تھا جس میں انسان کے اندر خود پر ہنسنے کی ہمت ہوتی ہے اور جو، اب ہمارا قومی نشان بنتا جا رہا ہے ۔مہمان کی دلچسپ شخصیت میں اپنائیت بھی کافی تھی۔وہاںکافی دوست احباب تھے ، اور ہم آپس میں زیادہ باتیں کر رہے تھے ، مہمان تنگ آکر بولے: ایسا لگتاآپ لوگوں کو ایک باہر کا بندہ چاہیے ہو تا ہے جس کا بہانہ بنا کر آپس میںباتیں کرتے رہتے ہیں۔ ہم چپ رہے، ہم ہنس دئیے ، اب کیا بتاتے کہ ایسا ہی ہے ۔ کھانا بہت پرتکلف اور مزیدار تھا۔جو ایک دفعہ پھرسے سیما اور شاہد ہاشمی کی میزبانی کی خوبی کو ظاہر کر رہا تھا ۔ کھانے کے بعد امید تھی کہ پاکستان کے حالات ِ حاضرہ پر ٹی وی پر دکھائی جانے والی خبروں سے پرے ہمیں کچھ اندر کی جانکاری ملے گی ۔ آخر کار وہ پاکستان کے ان نامی گرامی دانشوروں میں سے ہیں جن کا آدھے سے زیادہ پاکستان مداح اور پیروکار ہے ۔ میزبان کی خواہش پر کمرے میں موجود نمایاں لوگوں کو مہمان کے ہاتھوں سے پھول تقسیم کروائے گئے ۔ مجھے مہمان ضرورت سے زیادہ لمبے محسوس ہوئے ، حسب ِ معمول رہا نہ گیا کہہ ہی ڈالا کہ آپ سے اتنے لمبے قد کی امید نہ تھی ۔برجستہ بولے :بے وقوف لوگ لمبے ہی ہو تے ہیں ۔ میں نے اس بات پر رضامندی سے سر جھکایا اور کہا :مگر یہ راز تو بتائیے کہ پھر بھی آپ کی اتنی فالوننگ کیسے ہیں ۔ اسی سچائی سے بولے : کیوں کہ پاکستانی مجھ سے بھی زیادہ بے وقوف ہیں ۔ اب پاکستان کے لوگوں کی قد میں اوسط لمبائی بڑھتی نظر آئے تو تشویش میں مت پڑیں ۔فارمولہ ، جاوید چوہدری سمجھا گئے ہیں ۔ پھولوں کی منصفانہ تقسیم کے بعد وہ لمحہ آگیا جس کا مجھے کم از کم شدت سے انتظار تھا ۔ یعنی کہ پاکستانی معروف دانشور سے حکمت کے موتی براہ راست اکھٹے کرنے کا وقت۔ سبحان اللہ ۔جو مجھے یاد پڑتا ہے وہ کہہ رہے تھے کہ شعور اور شور میں ایک ع کا ہی فرق ہوتا ہے ۔ یہ سب سے گہری بات تھی جو انہوں نے کی،پھر ایک سابقہ سفیر صاحب اپنی سفیرانہ رعونت کے ساتھ سراپا سوال بنے : یہ خادم رضوی کون ہے اور ایکدم کہاں سے آگیا ؟
مہمان کوہچکچاتے دیکھ کر میں نے اپنی طرف سے بات سنبھالی کون ہیں تو چھوڑئیے بس یہ بتا دیں کہ توہین ِ عدالت ، توہین حکومت ِ اور توہین فوج کے بعد بھی ان کوکوئی پکڑتا کیوں نہیں؟مہمان ہماری کم عقلی اور نالائقی سے گھبرا اٹھے ، کیونکہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ باہر بیٹھے لوگ اتنے بے وقوف ہو سکتے ہیں کہ ایک عام مولوی کی وجہ سے اتنے پریشان ہو نگے ، اس بات کو انہوں نے سوال میں منتقل کر کے ہم پر داغا بھی اور پھر مجھے گھورتے ہو ئے بولے : آپ اپنے پوپ کو کچھ کہتے ہیں ؟ ایسے ذہانت بھرے سوال کو سن کر اب گھبرانے کی باری میری تھی ،میں ہکلائی : میرا پوپ ؟ کب سے ؟ اور اس نے ہمیں کیا کہا ہے ؟
بوجھ کندھوں سے سرکا ہی تھا کہ ایک دم مہمان کی حقارت بھری آواز آئی کہ آپ بیرون ملک پاکستانیوں کا یہ حال ہے کہ ہمارے پاس بیمار ماں کو چھوڑ آئے ہو اور پھر پوچھ پوچھ کے تنگ کرتے ہو کہ ماں کا خیال رکھنا ۔ اس بات پر سب بیرون ملک پاکستانیوں نے تالیاں بجا بجا کر انہیں یہ یقین دلایا کہ ہمیں اس بے عزتی پر کس قدر خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ مجھے اپنے گنوار پن کا احساس اور شدت سے ہوا مگر پھر بھی جسارت کی : اگر ہم ماں کو تمھارے بھروسے چھوڑ آئے ہیں تو مڑ مڑ کر اپنے لفظوں سے لیکرپیسوں تک کا زرمبادلہ بھیجتے بھی تو ہیں۔" تو نہ بھیجا کریں" ، ٹکا سا جواب میرے منہ پر پڑا ،آپ لوگ پاکستان کی فکر کرنا چھوڑ دیں" ۔
میں : ڈیم بنانے تک کا چندہ توہم لوگوں سے مانگا جا تاہے۔مہمان طیش میں آگئے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولے : نہ دیں ڈیم کو چندہ ، مجھے آپ لوگ کیا دیتے ہیں ؟ یہ گملہ ؟ ( جو پھول میزبان نے بہت محبت سے انہیں پیش کئے تھے ) ۔ایسی دانش اور حکمت کی باتیں سن کر میری تو آنکھوں میں پانی کے ساتھ ساتھ کالا موتیا اتر آیا ۔ ایسے میں میزبان نے کہا روبینہ اپنی کتاب انہیں پیش کریں ۔ اچھا ؟ یہ بھی ہو نا تھا ۔ میں نے کتاب پیش کی ۔ ایک چلبلے صاحب کہیںکونے سے بولے : ذرا مختصرا نہیں بتابھی دیں کہ کتاب میں کیا ہے ؟"
اب مہمان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا بولے : اتنا تو میں پڑھ ہی لیتا ہوں ۔ آخری کیل تابوت میں اس وقت ٹھکا ، جب ہر دلعزیز کیمرہ مین لائیو ویڈیو بناتے بناتے ایکدم کیمرے کے پیچھے سے نکلے اور مہمان پر لفافہ خوری کا سوال داغ دیا ۔ مہمان نے حلف اٹھایا اور اپنی ماں اور بہن کی جان کی قسم کھا کر کہا کہ میں نے یہ حرکت کبھی نہیں کی ۔ اب سب نے پھر تالیاں بجا کر مہمان کی بات کی تائید کی ۔ سب سے زور کی تالیاں میزبان اور سپانسر کرنیوالوں کی تھیں ۔میں نے میزبان سے کہا آئندہ مجھے ایسی علمی گفتگو میں شرکت کی دعوت نہ دیا کریں ۔میری جاہلیت آپ کی شرمندگی کا باعث بنتی ہے ۔

روبینہ فیصل ....دستک

روبینہ فیصل ....دستک

epaper

ای پیپر-دی نیشن