• news

نواز شریف‘زرداری‘فضل الرحمن اور محمود اچکزئی پر شدید تنقید وزیر اطلاعات کی تقریر پر ہنگامہ

اسلام آباد (خصوصی نمائندہ) سینٹ میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی تقریر پر ہنگامہ، وزیر اطلاعات نے نواز شریف‘زرداری‘فضل الرحمن اور محمود اچکزئی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اپوزیشن نے فواد چوہدری کے الفاظ پر شدید احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے واک آﺅٹ کر دیا اور قائد ایوان شبلی فراز کے منانے پر بھی اپوزیشن ایوان میں نہ آئی۔ چیئرمین سینٹ نے فواد چوہدری کے غیر پارلیمانی الفاظ ایوان کی کارروائی سے حذف کرا تے ہوئے تنبیہ کی کہ آپ پارلیمانی زبان میں اپنا بیان دیں اگر آپ نے پارلیمانی زبان استعمال نہ کی تو آپ کو بولنے نہیں دیں گے ۔چیئرمین سینٹ کے بار بار کہنے پر فواد چوہدری اپنی نشست پر کھڑے رہے اور چیئرمین پر اعتراض کیا ہے کہ آپ اپوزیشن کی زیادہ سائیڈ لیتے ہیں اور ہمیں ہی ہمیشہ چپ کراتے رہتے ہیں ۔چیئرمین سینٹ نے کہاکہ چوہدری صاحب آپ جب بھی آتے ہیں ایوان کا ماحول خراب کر دیتے ہیں۔چیئرمین نے فواد چودھری کا مائیک بند کرا دیا تاہم وزیر اطلاعات نے مائیک بند ہونے کے باوجود تقریر جاری رکھی۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ سپیکر قومی اسمبلی کے ساتھ مل کر ضابطہ اخلاق بنانا چاہئے اور تمام اراکین اس پر عمل کریں۔ وزیر صاحب آپ نامناسب الفاظ استعمال کرتے ہیں، برداشت کریں۔ ایوان کو چلانا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے جبکہ فواد چوہدری نے معاشی دہشت گردی کی تحقیقات کےلئے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ محمود اچکزئی، فضل الرحمان ، شریف اور زرداری نے اس ملک کو لوٹا ہے،گزشتہ دس سالوں میں 42ٹریلین روپے بلوچستان کو دئیے گئے وہ کہاں استعمال ہوئے کسی کو کچھ پتہ نہیں ، پچھلے دس سالوں میں وہاں کون حکمران تھے،ماضی میں مختلف جگہوں پر اولیاءکرام کے مزاروں سے ملحق اراضی پر قبضہ کیا گیا ، جو اربوں کھا کر بیٹھے ان کا نام لینا ضروری ہے۔ مسلم لیگ ن والے دربار بابا فرید کی زمین بھی کھا گئے۔ کرپشن کے خلاف بات کریں تو اپوزیشن کا احتجاج شروع ہو جاتا ہے۔ مشاہداللہ نے میرے متعلق نامناسب الفاظ استعمال کئے وہ یا ان کی جماعت معذرت کرے۔ ا پوزیشن کی خواہش ہے کہ احتساب کی بات نہ کریں ،چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے سپیکر قومی اسمبلی سے مشاورت کے بعد پارلیمانی کمیٹی بنانے کی یقین دہانی کرا دی۔ فواد چوہدری کے الفاظ پر اپوزیشن ارکان نے شدید احتجاج کیا اور شور شرابہ کیا۔ قائد حزب اختلاف راجہ ظفر الحق نے کہا کہ شیری رحمٰن اہم بات کرنا چاہتی ہیں ان کو موقع دیا جائے۔ سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ آج کمیٹی میں بھی اس بات کا جواب نہیں دیا گیا کہ ایس پی طاہر داوڑ کے معاملے کا کیا بنا، حکومت اس معاملہ پر وضاحت کرے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے کہا کہ یہ اہم اور سنجیدہ نوعیت کا معاملہ ہے، پولیس آفیسر کے حوالے سے جو خبریں آ رہی ہیں، ان پر سیکرٹری داخلہ سے بات کی ہے، سرکاری اور مصدقہ ذرائع ابھی پولیس آفیسر کے حوالے سے کوئی تصدیق نہیں کر رہے، اس بارے میں تفصیلی بیان متعلقہ حکام سے تفصیلات حاصل کرنے کے بعد دیا جائے گا۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ پھر یہ معاملہ کل پر رکھ لیں۔ جس پر وزیر اطلاعات نے کہا کہ کل میں ایوان میں آ کر اس بارے میں بات کروں گا، اگر سینیٹر صاحبان کو زیادہ معلومات ہیں تو جا کر متعلقہ ایجنسی کو بتا دیں۔ وفاقی وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا ہے کہ کوئٹہ ایئرپورٹ کا 72 فیصد کام مکمل کر لیا ہے، کام بروقت مکمل نہ کرنے کی وجہ سے منصوبے کی لاگت 2.6 ارب روپے سے بڑھ گئی۔ دیکھنا ہو گا کہ گزشتہ دس سالوں میں جو فنڈز بلوچستان میں گئے وہ درست طریقے سے لگے بھی یا نہیں۔ پی آئی اے کی بحالی میں سارے معاملات کو دیکھا جا رہا ہے۔ قبل ازیں توجہ مبذول نوٹس پر سینیٹر عثمان کاکڑ، سردار اعظم موسیٰ خیل، سینیٹر میر کبیر شاہی اور سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ کوئٹہ ایئرپورٹ کی تکمیل دسمبر 2017ءمیں ہونا تھی لیکن اب تک اسے مکمل نہیں کیا گیا، کوئٹہ کی پروازیں اکثر منسوخ ہو جاتی ہیں، صوبے کے ساتھ نا انصافی نہ کی جائے۔ اپوزیشن نے وقفہ سوالات کے دوران وزراءکی عدم موجودگی اور تاخیر سے آمد پراور وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی تقریر پر واک آﺅٹ اور اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ چیئرمین سینٹ نے ہدایت کی کہ وزراءکی تاخیر سے آمد کے حوالے سے وزیراعظم کو خط ارسال کیا جائے۔ شبلی فراز نے کہا کہ سینئر وزرا کی غیرحاضری پر شرمندگی ہے۔ ایوان بالا کے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران سینیٹر چوہدری تنویر خان کے سوال کے جواب میں وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے کہا کہ ایل ای ڈیز اور ایس ایم ڈی لائٹس پر کافی سبسٹڈیز دی جاتی ہیں۔ سینیٹر عتیق شیخ کے سوال کے جواب میں وزیر مملکت ریونیو حماد اظہر نے بتایا کہ مالی سال 2017-18ءکے دوران شرح تبادلہ میں کمی کی وجہ ملکی ادائیگی کے توازن میں نمایاں کمی تھی، ہماری حکومت آئی تو 123.6روپے ڈالر کا ریٹ تھا اب 133 روپے ہے، ہمارے آنے کے بعد سے اب تک 7.7 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ایک ضمنی سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کو مکمل آزادی ہے کہ وہ مارکیٹ کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر ڈالر ریٹ کا تعین کرے، حکومت اس میں دخل نہیں دیتی۔ سینیٹر محسن عزیز کے سوال کے جواب میں وزیر برائے نجکاری کمیشن محمد میاں سومرو نے بتایا کہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران پانچ نجکاری کی کارروائیوں کو کامیابی سے مکمل کیا گیا ہے۔ ایک ضمنی سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ فی الحال دو پاور پلانٹس بلوکی اور حویلیاں پاور پلانٹس کی نجکاری زیر غور ہے، صرف نجکاری کمیشن فیصلے نہیں کرتا، متعلقہ وزارتیں بھی اپنی سفارشات دیتی ہیں، نجکاری سے حاصل ہونے والے پیسے وزارت کو چلے جاتے ہیں۔ حماد اظہر نے بتایا کہ گزشتہ دس سال کے دوران کل 13140 ارب روپے کے ملکی قرضے لئے گئے، مکی قرضے بجٹ امداد کے لئے حاصل کئے جاتے ہیں۔ سینیٹر طلحہ محمود، سینیٹر مشتاق احمد اور دیگر کے سوال کے جواب میں وزیر ریونیو حماد اظہر نے کہا کہ رجسٹرڈ کمپنیوں کے تجارتی امور سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان چلاتی ہے، سرکاری فنڈ کے غلط استعمال کا معاملہ ایس ای سی پی کے دائرہ کار میں نہیں آتا، ماضی میں ترقیاتی فنڈز میں کافی گھپلے ہوئے، ہم نے اس سلسلہ کو ختم کرنا ہے، نیب اس سلسلے میں کام کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیمنٹ کی قیمتیں بڑھنے کے معاملے کو مسابقتی کمیشن کو دیکھنا چاہیے کیونکہ حکومت نے کوئی ٹیکس نہیں لگایا جس سے قیمتوں میں اضافہ ہو۔ سینٹ اجلاس کے دوران لیگی رہنماءسینیٹر مشاہد اللہ خان سیدھے وزیر اطلاعات فواد حسین کی نشست پر جا پہنچے اور ان سے ہاتھ ملایا جس پر چیئرمین نے دونوں رہنماﺅں کی ملاقات پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اب دونوں کے درمیان دوستی ہوگئی ہے اس لئے اب ایوان کا ماحول خراب نہ کیا جائے۔

سینٹ اجلاس

ای پیپر-دی نیشن