ذکر عمران خان، عافیہ صدیقی اور حمزہ شہباز کا!
کرۂ ارض پر انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار اور اس پُرفریب موقف کی آڑ میں ترقی کی طرف گامزن چھوٹے چھوٹے ممالک کو تباہ و برباد کر دینے والے امریکہ سے بلند ہونے والی ایک پکار نے نہ صرف پاکستان کے عوام بلکہ یقیناً انسانیت سے محبت کرنے والے ایک عالم کو بھی تڑپا دیا ہے۔ یہ پکارامریکہ میں ہیوسٹن کے عقوبت خانے میں قید اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ایک بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی طرف سے بلند ہوئی ہے۔ یہ کس قدر روح فرسا حقیقت ہے کہ ارض وطن پر کہنے کو تو مذہب کے نام پر سیاست چمکانے والوںکی بھرمار ہے بلکہ آئے دن جُبہ و دستار کے متوالوں کی طرف سے آئے دن مخصوص مقاصد کے تحت نت نئی تنظیموںکا قیام سُننے میں آتا رہتا ہے مگر ایک عمر بیت گئی۔ ایسی کسی تنظیم کو بھی کسی منظم پروگرام کے تحت قوم کی اس بیٹی کو اسلام دشمن امریکہ کے عقوبت خانے سے نجات دلانے کی آواز تسلسل کے ساتھ بلند کرنے کی جرأت اور ہمت نصیب نہ ہوئی۔ ایسے سبھی مفتیان مذہب اور سیاسی سوداگروں کی زبانیں گنگ چلی آ رہی ہیں، پندرہ ساڑھے پندرہ برس ایک طویل عرصہ ہوتا ہے۔ اس دوران پاکستان میں کتنی حکومتیں آئیںاور انجام کو پہنچ گئیں۔ مگر ایوان اقتدار کے کسی بھی مکین کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ امریکہ کی ناانصافیوں، ظلم و زیادتیوں اور جور وستم کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے ہوسٹن کے عقوبت خانے میں پابند سلاسل پاکستانی بیٹی عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے نیک نیتی سے کوئی ٹھوس قدم اُٹھا سکے۔ بالآخر اپنی یپتاکی رہائی عافیہ صدیقی کو ہمت و جرأت کامظاہرہ کرتے ہوئے خود ہی دینا پڑی۔ ہیوسٹن کی جیل میں پاکستانی کونسل جنرل کی ملاقات کے دوران عافیہ صدیقی نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کے نام ایک خط دیا ، روزنامہ نوائے وقت میں واشنگٹن کے حوالے سے شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق عافیہ صدیقی نے اپنے خط میں وزیراعظم پاکستان عمران خان سے یہ اُمید وابستہ کی ہے کہ وہ اس کی رہائی میں مدد دیں گے۔ عافیہ نے لکھا ہے کہ عمران خان نے ماضی میں میری بہت حمایت کی۔ اب میں قید سے رہائی چاہتی ہوں۔ امریکہ میں میری سزا غیر قانونی ہے۔
حقائق کچھ اس طرح ہیں کہ ماضی کے آمرانہ اور نیم آمرانہ ادوار میں بھی عمران خاں عافیہ صدیقی کے خلاف امریکہ کی انتقامی کارروائیوں کی مذمت اور مخالفت کرتے رہے ۔ عمران خاں واحد سیاسی رہنما تھے جو عافیہ صدیقی کے ساتھ کھڑے رہے۔ اس کا کھلے بندوں اظہار عافیہ صدیقی کی ہمشیرہ محترمہ فوزیہ صدیقی نے بھی کیا ہے۔ فوزیہ صدیقی نے تو اپنے ایک حالیہ بیان میں یہ انکشاف بھی کر دیا ہے کہ امریکہ نے پاکستان میں قتل کا ارتکاب کرنے والے ریمنڈ ڈیوس اور پھر بریگیڈئر برگ دیل کو امریکہ کے حوالے کرنے کے عوض عافیہ صدیقی کو پاکستان کے حوالے کرنے کی پیشکش کی تھی مگر پاکستان کے اس وقت کے ارباب اقتدار نے امریکی پیش کش کو نہ قبول کرتے ہوئے کچھ اور لے لیا۔ اسی وقت عمران خان نے کہہ دیا تھا کہ عافیہ کو تنہا چھوڑنے والوں کو حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں۔ گئے دور میں ایوان اقتدار سے باہر رہتے ہوئے عمران خاں واحد شخص تھے جنہوںنے عافیہ صدیقی پر پاکستانی حکمرانوں کی بے حسی اور امریکی حکومت کی غیر انسانی اور غیر قانونی زیادتیوں اور ناانصافیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ یقیناً اب بھی موجودہ حکومت کے ایما ہی پر امریکہ کی ہیوسٹن جیل میں پاکستانی قونصل نے ملاقات کی اور اس ملاقات کے دوران عافیہ صدیقی نے اپنا خط انہیں دیا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعظم عمران خان قوم کی بیٹی کی اُمید کو پورا کرنے میں حکومتی مساعی کو پوری طرح بروئے کار لائیں۔ بلاشبہ پاکستان کی وزارت خارجہ کی طرف سے عافیہ صدیقی کے معاملہ کو اُٹھایا جاتا رہا ہے، مگر یہ بات پہلی دفعہ منظرِ عام پر آ کر پاکستان کے عوام کے لئے اطمینان کا باعث بن رہی ہے کہ اب موجودہ حکومت پوری سنجیدگی اور صدق دلی کے ساتھ قوم کی بیٹی کی رہائی کے لئے سرگرم عمل ہو چکی ہے۔ عافیہ صدیقی کا عمران خان کے نام خط ملنے کے بعد ہی اس حقیقت کا افشا بھی ہوا ہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے واضح طور پر کہا ہے کہ حکومت پاکستان کی طرف سے عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے پاکستان کا دورہ کرنے والے امریکی ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری مسٹر ایلس ویلز کو یہ پیغام دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ عافیہ صدیقی کے بارے میں تمام تر انسانی حقوق کو مدنظر رکھا جائے جبکہ امریکہ نے پاکستان کو عافیہ صدیقی کے معاملے میں غور کی یقین دہانی بھی کرا دی۔ اس امر کا غالب امکان ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے وزیراعظم عمران خان کے نام جو خط لکھا تھا اس کی روشنی میں حکومت پاکستان کی ہونے والی مساعی نتیجہ خیز ثابت ہونے میں اب زیادہ مدت نہیں لگے گی۔ باخبر ذرائع کے مطابق حکومت اس سلسلے میں انتہائی احتیاط سے کام لے رہی ہے۔ یہ معاملہ اپنی نوعیت کا انتہائی حساس ہے اور جو پیش رفت اس سلسلے میں ہو رہی ہے، اس کا کھلے بندوں اظہار بھی یقیناً مناسب نہیں۔ اس حوالہ سے گزشتہ دنوں وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حوالے سے امریکہ سے بات ہوئی ہے، مگر جو پیش رفت ہوئی ہے، ابھی وہ بتائی نہیں جا سکتی۔ حقیقت کچھ اس طرح ہے کہ حکومت نے امریکہ سے عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے باقاعدہ بات چیت کا آغاز کر دیا ہے۔ قارئین کرام کے لئے یہ بات بھی خالی از دلچسپی نہیں ہو گی کہ ماضی میں ایوان اقتدار کے مکینوں کو اپنی غلطیوںکا کچھ کچھ احساس ستانے لگا ہے اور اپنی ہی کوتاہ بینیوں اور غلطیوں کے نتیجے میں ہونے والی درد کو محسوس کرنے لگے ہیں۔ خدا معلوم انہیں ملک کے خوبصورت قدیم تاریخی شہروں کی حقیقی ثقافتی شکل و صورت کو مسخ کرنے، قومی خزانے سے من پسند ملازمین کو لاکھوں روپوں سے نواز نے اور قومی شعبوں میں اخلاقی اقدار کو تہس نہس کرنے کی غلطیوں کا ادراک کب ہو گا؟ فی الحال یہ اقرار برملا ہونے لگا ہے کہ ہم سے غلطی ہوئی ہم نے نیب کا کالا قانون ختم نہیں کیا۔ یہ عذر گناہ بد تراز گناہ والی بات ہے گئے دور میں اپنے والد گرامی میاں شہباز شریف کے عہد وزارت اعلیٰ کے دوران پنجاب میں ایک طرح کے قائم مقام مختارِ کل موجودہ صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز شریف کہتے پھر رہے ہیں کہ نیب پاکستان کے اداروں پر دھبہ ہے۔ ہم نے غلطی کی اس قومی احتساب بیورو کو ختم نہیں کیا۔ یہ خیال آپ یا کو اس وقت کیوں نہ آیا جب آپ نے سیف الرحمن کے ہاتھوں ملک کے مقتدر سیاسی رہنمائوں کو رُسوا کرنے کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ اب تو اپنے کئے کا خمیازہ بھگتنا ہو گا جس پودے کو خود لگایا تھا۔ آخر اسکی چھائوں میں تپش کیوں محسوس ہونے لگی ہے؟ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے؟