کتابیں بولتی ہیں
ایک ادیب نے لکھا کہ کتاب انسان کو اس دنیا میںلے جاتی ہے جہاں انسان روحانی آنکھ سے دوسری دنیا میں جھانک سکتا ہے۔ روحانی سلسلہ برقرار رہے تو باطن کی آبیاری ہوتی ہے اور باطن کی نشوونما ہی شخصیت کی تعمیر میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ موبائل‘ انٹرنیٹ اور اس قسم کی دوسری مصروفیات نے انسان کو کتاب سے دور کر دیا ہے۔ اچھی کتاب بلاشبہ پڑھنے والوں کیلئے ہر تکلیف میں اکسیر کا کام کرتی ہے۔ کتابیں دھڑا دھڑ چھپ رہی ہیں‘ لیکن اچھی کتاب کا منظرعام پر آنا اور قاری کیلئے دلچسپی اور معلومات کا سبب بننا معدودے چند ہے۔ ’’حرف آغاز‘‘ درحقیقت فکری اشکالات پر بحث کرتی ہوئی ایسی کتاب ہے جس میں نیرنگی خیال نے احساس کی دنیا میں کئی سوالوں کو زندہ کر دیا ہے کہ ہماری اخلاقی روایات زوال پذیر کیوں ہیں۔ پھر مردہ روایات کو کس طرح حیات نو بخشی جا سکتی ہے اور کس طرح نئے معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے جس میں صداقت‘ محبت‘ احساس‘ خلوص اور وفاداری کا بیج بویا جا سکتا ہے۔ اس کتاب کے مصنف ڈاکٹر اظہر وحید زندگی کو مختلف انداز سے دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’دل ایک عجب محل اسرار ہے۔ یہ روح اور جسم دونوں کا مشترک دارالحکومت ہے۔ اس لئے دل پر جس کا قبضہ ہو جائے درحقیقت حکومت اسی کی ہے۔ توبہ کا مطلب یہ ہوا کہ دل میں جھوٹے خدائوں کا عمل دخل ختم ہوا اور ایک خدائے واحد کا امرجاری ہوا۔‘‘ ڈاکٹر اظہر وحید باطنی سفر میں اکیلے نہیں ہوئے وہ اپنے ہمراہ اپنے مرشد حضرت واصف علی واصف کو ساتھ رکھتے ہیں۔ حضرت واصف علی واصف کے اقوال یقینی طورپر مصنف کیلئے مشعل راہ ہیں۔ زاہد اختر شاہین نے حضرت واصف علی واصف پر جو مقالہ تحریر کیا ہے‘ اس میں انہوں نے ڈاکٹر اطہر وحید کو ان کا جانشین قرار دیا ہے۔ گویا کہ مصنف کی تحریروں میں ان کے کردار‘ شخصیت اور علم و حکمت کی گہری چھاپ ہے جس کے نتیجے میں وہ خوبصورت اور منفرد سوچ کے ساتھ ایسے خیالات اور تحریریں رقم کر جاتے ہیں جو مشعل راہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلام دین رحمت ہے اور اسلام پاکستان لازم و ملزوم ہیں۔ پاکستان کو بچانے کیلئے اتنا اسلام ہی کافی ہے جو قائداعظم کے پاس تھا یعنی فرقہ واریت سے بالا۔ اسلام دین صداقت ہے۔ صداقت کردار نہ ہو تو دین کا عالم بھی منافق کہلاتا ہے۔ قائداعظم صاحب کردار تھے۔ ارض پاکستان کے منتشر اور مضمحل اجزاء اپنے ظہور ترتیب کیلئے مربوط فکری نظام کا تقاضا کرتے ہیں۔ ایک طرزفکر ہی ہمیں مضبوط قوم بنائے گا۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے ہم منزل سے کوسوںدور ہیں۔ بریگیڈیئر صولت رضا نے اپنی کتاب ’’غیرفوجی کالم‘‘ میں ان اسباب کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ سیاسی اتار چڑھائو‘ غریب عوام کی حالت زار اور رہنمائوں کا کردار ان کی کتاب میں بہت وضاحت کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔ 1947ء سے ہچکولے لیتی سیاست میں استحکام کیوں نہ آسکا۔ آج ہمارے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے اور اس کیلئے ہمیں عزم‘ ارادے اور ولولے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وطن عزیز کے ہزاروں لاکھوں نوجوان جو گھر سے زیادہ وقت کھیل میں گزارتے ہیں‘ عمران خان جیسی شہرت اور کامیابی کے آرزومند ہیں۔ اس کے چاہنے والے سات سمندر پار بھی کم نہیں ہیں۔ شاید نئی نسل کو وطن عزیز کے پہلے صدر پہلے وزیراعظم اور پہلے آرمی چیف کے نام یادہوں یا نہ ہوں‘ لیکن عمران خان کے حوالے سے تفصیلات ازبر ہونگی۔ ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ عمران خان کھیل کے میدان میں فاتح بن کر ابھرا۔ شہرت کی دیوی کی اس کی پجارن بن گئی۔ والدہ مرحومہ کی یاد میں شوکت خانم کینسر ہسپتال کی تعمیر اس کا خواب تھا۔ جنوبی ایشیا میں سرسید احمد خان کی تحریک کے بعد شاید یہ دوسری چندہ مہم تھی کہ مٹھی بھر آٹا سے لیکر عمر بھر کی کمائی نذر کرنے والے مناظر دیکھنے میں آئے۔ آج تک کسی نے رسید طلب نہیں کی۔ حساب طلب نہیں کیا۔ یقینا آج کے دور میں یہ کتابی ذہن کی آبیاری اور ذہن میں موجود کئی تشنہ سوالوں کا مکمل جواب ہیں۔