حضرت میاں میر قادریؒ
پروفیسر محمد نصر اللہ معینی
شیخ الاسلام حضرت میاں میر قادریؒ ان نفوس قدسیہ میں ممتاز مقام رکھتے ہیں جن کی سیرت و تعلیمات کی روشنی زندہ دلوں کو ولولۂ تازہ اور مردہ دلوں کو حیاتِ نو عطا کرتی ہے اور جن کی زندگی کا ایک ایک لمحہ قدم بقدم رہبر بن کر جادۂ حق کے مسافر کو منزلِ مراد تک لے جاتا ہے۔ تاریخ ہمیں حضرت میاں میرؒ کی کسی تصنیف سے متعارف نہیں کراتی۔ آپ ؒ کتابیں تصنیف کرنے اور مطالعہ میں مگن رہنے کو پسند نہ کرتے۔ ان کے نزدیک تصوف پڑھنے پڑھانے کی نہیں، برتنے کی چیز ہے۔ آپ کم گو تھے اور اپنے احباب کو بھی کم گوئی اور خاموشی کی تلقین فرمایا کرتے۔ آپ کا ارشاد ہے کہ جتنی دیر گفتگو میں مصروف رہو گے اتنی دیر ذکر الٰہی سے محروم رہو گے۔ (۱)کم گوئی اور خاموشی معرفت ِ حق کی علامت ہے۔ یہ اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ یہ انسان عظیم حقیقتوں سے آگاہ ہے۔ بعض عرفا نے کہا ہے:
’’من عََرَفَ اللّٰہَ کَلَّ لسانہ ‘‘
’’جس نے اپنے رب کی معرفت حاصل کر لی اس کی زبان گویائی سے عاجز ہو جاتی ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے اسرار سے آگاہی کی بنا پر وہ حیرت کی کیفیت میں گم رہتا ہے۔ سیّدنا حضرت ابوبکر صدیق ؓ اکثر یہ دعا فرمایا کرتے:
’’ اَللّٰھُمّ زدْ حیرتی فِیک ‘‘
ایک وزیر نے حضرت میاں میرؒ سے عرض کیا کہ حضوری کے اوقات خاص میں اس خاکسار کو بھی یاد فرمالیں۔فرمایا ’’ایسے وقت پر خاک‘‘ جس میں اللہ تعالی کے سوا مجھے کوئی اور یاد آئے۔
آپ اکثر یہ شعر پڑھا کرتے:
کسے کو غافل از حق یک زماں است
در اں دم کافر است امّا نہاں است
’’یعنی جو شخص پل بھر کے لیے حق تعالیٰ سے غافل ہو جائے اس وقت وہ کفر کی حالت میں ہے، اگرچہ یہ کفر ظاہر نہیں بلکہ پوشیدہ ہے۔‘‘
آپ ہمیشہ ذکر و فکر میں مصروف رہتے، اکثر استغراقی کیفیت طاری رہتی۔ تنہائی کو پسند فرماتے، ذکر و عبادت کے لیے جنگل اور باغات کی طرف نکل جاتے۔ خاص احباب جو ساتھ ہوتے وہ الگ الگ جگہوں پر ذکر و عبادت میں مصروف رہتے لیکن نماز کے اوقات میں سب ایک جگہ جمع ہو کر باجماعت نماز اداکرتے۔
یہ بات مسلّم ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی طرح صوفیائے عظام رحمہم اللہ بھی عمل کا پیکر ہوتے ہیں۔ ان کی ہر ادا ان کی فکر اور تعلیمات کی ترجمان اور مبلغ ہوتی ہے۔ عشاق ان کے اشارۂ اَبرو سے اپنی سمتیں درست اور راہوں کا تعین کرتے ہیں۔ شیخ کامل کی مجلس میں رونما ہونے والا ہر واقعہ زندہ احساس رکھنے والے کے لیے تربیت ِنفس میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
شیخ الاسلام حضرت میاں میرؒ کے ملفوظات اور تعلیمات پر کوئی مستقل کتاب سامنے نہیں آئی۔ آپ لکھنے لکھانے کو پسند نہیں کرتے تھے۔
آپ کی کم گوئی اور سکوت پسندی کو دیکھ کر کوئی صاحب ِ قلم آپ کے ملفوظات کو جمع نہ کر سکا۔ تاہم آپ کی سیرت کا مطالعہ کرنے والے کے لیے آپ کی زندگی کے ہر پہلو میں رُشد و ہدایت کی روشنی موجود ہے۔ تصوف، اعمالِ شریعت کو احسن انداز میں سرانجام دینے کا نام ہے، اسی لیے تصوف کو احسان کیا گیا ہے۔ حسنِ عمل کے یہ رویے حضرت میاں میرؒ کی زندگی کے ایک ایک لمحہ کو محیط تھے۔
خود نمائی اور نام و نمود سے نفرت:
حضرت میاں میر قادری ؒ شہرت اور نام و نمود کو پسند نہ فرماتے۔ فقیرانہ میلے کچیلے ریاکارانہ لباس کی مذمت فرماتے۔ فقیروں کی مخصوص گڈری نہ خود پہنتے نہ ہی مریدوں کو پہننے کی اجازت دیتے۔ آپؒ فرمایا کرتے کہ جو لوگ دنیائے ولایت میں قدم رکھنے کے بعد بھی خرقہ یا گدڑی پہنتے ہیں، وہ خودنمائی کرتے ہیں۔
آپ اکثر یہ شعر سنایا کرتے:
کسے کو راست باحق آشنائی
نیاید ہرگز از وے خود نمائی
’’یعنی جو حق تعالیٰ سے دوستی کا دم بھرتا ہے، اس سے خودنمائی سرزد نہیں ہو سکتی۔‘‘
آپؒ کے خلیفہ حضرت میاں محمد بنیانی قادریؒ فاخرہ لباس استعمال کیا کرتے۔ ان سے جب اس کی وجہ دریافت کی گئی تو فرمایا کہ جس وقت وہ عالمِ تجرید میں تھے ان کے تن کی گدڑی پارہ پارہ ہو گئی۔ ایک دفعہ بازار میں سے گزر رہے تھے، اس فقیرانہ لباس کو دیکھ کر لوگ ٹوٹ پڑے اور ان کے ہاتھ چومنے لگے۔ اتنی دیر میں حضرت میاں میر قادریؒ کا گزر اس طرف سے ہوا۔ ان کی یہ وضع قطع دیکھ کر آپؒ نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا اور حکم دیا کہ اس لباس کو اتار کر اچھا لباس پہنا کرو۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپؒ نے فرمایا: آئندہ ایسا لباس پہنو کہ کوئی یہ نہ جان سکے کہ تم کس گروہ کے فرد ہو۔
آپ کے اس ارشاد کی تائید حضرت سیّد علی ہجویری کے اس قول سے بھی ہوتی ہے کہ:’’یہ راہ محض گدڑی پہنے سے طے نہیں ہوتی بلکہ یہ منزل، ریاضت اور محنت سے ملتی ہے۔ جو شخص طریقت سے آشنا ہو گیا اس کے لیے امیرانہ لباس بھی فقیر انہ عبا ہے اور جو اس سے بیگانہ اور ناآشنا ہے، اس کے لیے فقیرانہ گدڑی بھی نحوست و ادبار کی نشانی اور آخرت میں باعث ِشقاوت ہے۔ ‘‘
حضرت میاں میرؒ ہر اس کام سے پرہیز فرماتے جس میں ریاکاری یا حُبِّ جاہ کا شائبہ بھی ہوتا۔ آپ فرمایا کرتے کہ حُبِّ جاہ درویش کے لیے تباہی اور بربادی کا موجب ہے۔ فرمایا: حبِّ جاہ کو دل سے نکالنا بڑا بھاری کام ہے۔ آپ اکثر حضور ؐکی یہ حدیث سنایا کرتے کہ ’’صدیقوں کے سر سے حُبِّ جاہ سب سے آخر میں نکلتی ہے۔‘‘ چنانچہ اپنے خلفاء کو طلب ِشہرت اور حُبِّ جاہ سے بچنے کی سخت تلقین فرماتے۔
حضرت خواجہ بہاریؒ آپ کے اکابر خلفاء میں سے تھے۔ ایک دن چند احباب کے ساتھ گھر میں تشریف فرما تھے کہ چھت کی کڑیاں چڑ چڑانے لگیں۔ انہوں نے دوستوں کو فوراً مکان سے نکل جانے کے لیے کہہ دیا۔ وہ سب باہر چلے گئے لیکن خواجہ بہاریؒ خود وہیں بیٹھے بلند آواز سے کلمۂ طیبہ کا ورد کرنے لگے۔ اندازے کے مطابق چھت گر پڑی لیکن دو کڑیاں آپس میں جُڑ گئیں اور اس تکون کے نیچے خواجہ بہاریؒ محفوظ بیٹھے رہے۔
یہ واقعہ جب حضرت میاں میرؒ کی خدمت میں عرض کیا گیا تو فرمایا: ہائے! عزت اور جاہ کی طلب! کہ اس کا خیال مرتے وقت بھی نہیں جاتا۔ کلمۂ طیبہ بلند آواز سے پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ لوگ سُن لیں کہ بہاریؒ موت کے وقت بھی خدا کو یاد کرتا رہا۔ پھر فرمایا: اسے کلمہ طیبہ دل میں پڑھنا چاہیے تھا۔
میاں نتھاؒ آپ کے اخص الخواص میں سے تھے۔ حضرت شیخ الاسلامؒ ان کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ فرماتے۔ آپ کی نگاہِ لطف کی بناء پر انہیں بلند روحانی کمالات نصیب ہو گئے اور تمام علومِ باطنی منکشف ہو گئے۔
ایک مرتبہ ان کے کوچے میں کئی دن سے چوہا مرا پڑا تھا، جس سے بدبو اٹھ رہی تھی۔ انہوں نے دیکھا تو فرمایا: ’’او مردار اُٹھ اور یہاں سے چلا جا۔‘‘ چوہا فوراً زندہ ہو کر بھاگ گیا۔ حضرت میاں میرؒ نے سنا تو اظہارِ کرامت پر سخت ناخوش ہوئے۔
ایک دن شیخ الاسلامؒ احباب کے ساتھ اپنے حجرہ کے باہر ذکر اذکار میں مصروف تھے۔ کچھ دیر بعد بادل گھرآوعئے اور بوندا باندی شروع ہو گئی۔ حضرت شیخ الاسلامؒ نے فرمایا۔ کیا ہی اچھا وقت تھا، دل جمعی سے بیٹھے تھے، اب تو یہاں سے اٹھنا پڑے گا۔ میاں نتھاؒ نے عرض کی، ’’اگر آپ اجازت دیں تو مینہ اور ہوا وغیرہ کو اُڑا دوں اور مطلع صاف ہو جائے اور آپ کو یہاں سے اٹھنا نہ پڑے۔ حضرت شیخ الاسلامؒ نے میاں نتھاؒ کو اس اظہارِ کرامت پر سخت سرز نش کی ۔ فرمایا، اچھا اب تو خود فروشی کرنے لگا ہے۔ بعد ازاں بڑی شفقت سے فرمایا کہ اگر ہم یہاں سے اُٹھ کر حجرے میں چلے جائیں تو کیا حرج ہے، تو نے نہیں سنا کہ محمود کا فعل بھی محمود ہوتا ہے۔‘‘ خبردار! آئندہ اس قسم کے افعال کا مرتکب نہ ہونا اور کارخانۂ قدرت میں دخل نہ دینا بلکہ اس کی قضا پر راضی رہنا۔ (۱۱)حضرت میاں میر قادریؒ کا کرامات کے حوالے سے وہی مؤقف تھا جو جلیل القدر صوفیائے متقدمین کا تھا۔ وہ بطورِ خاص اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ ان کے مجاز اور خلفاء حضرات کرامت کے اظہار سے اجتناب کریں اور یوں شہرت اور نام و نمود سے بچنے کی کوشش کریں۔ وہ کشف و کرامت کے اظہار کو سالک ِراہِ طریقت کے لیے حجاب قرار دیتے تھے اور فرماتے ’’کشف برسر او کفش‘‘ یعنی کشف کے سر پر جوتا۔
حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء دیگر سلاسل کے ہاں مراتب سلوک میں کرامت کا درجہ بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ ’’خواجگانِ چشت کے نزدیک سلوک کے پندرہ درجے ہیں، ان میں پانچواں درجہ کشف و کرامت کا ہے ۔جو شخص اپنی ذات کو پانچویں درجہ میں ہویدا کرے گا وہ بقیہ دس درجوں کو حاصل نہ کر سکے گا۔ ‘‘ اس مختصر مقالہ میں حضرت شیخ الاسلام میاں میر قادریؒ کے اخلاقِ عالیہ اور تعلیمات کا اجمالی تذکرہ ہوا، ورنہ بقول شیخ سعدیؒ:
نہ حسنش غایتے دارد نہ سعدی را سخں پایاں
بمیر تشنہ مستسقی و دریا ہمچناں باقی