حضرت میاں میر اور محفل سماع
ڈاکٹر محمد جہانگیر تمیمی
صوفیائے کرام ؒ نے علاقے فتح نہیں کیے ، قلوب و اذہان کی تسخیر کی۔ یہاں تک کہ سماع سے اسلام کے فروغ اور دین کی اشاعت کا کام لیا جو عصری اجتہاد کا ایک دلآویز نمونہ اور مسلمانوں کی پوری دینی تاریخ میں ایک لازوال مثال ہے ۔امیر خسروؒ نے ہندوؤں کے خمیر میں رچی ہوئی موسیقی پر ایسا قبضہ جمایا کہ مسلمان آج بھی برعظیم پاک و ہند کی حد تک موسیقی میں استاد کے مقام پر فائز ہیں اور ہندو شاگردہیں۔ صوفیائے کرام نے سماع ( قوالی ) سے دل پلٹنے کا کام لیا ، جو حقیقی اسلامی انقلاب ہے ۔صوفیاء کے اس اجتہا دیا کارنامے کا دوسرا نام سماع یا قوالی ہے ، جسے عجزِ فہم کے ریگستان میں حلال و حرام کے خلط مبحث کا موضوع بنا دیا گیا۔ حالانکہ صوفیائے کرامؒ نے عشقِ حقیقی کی عالمگیر سچائی کو شعر و نغمہ میں پرو کر ظلمت کدۂ ہند کو منور کر دیا ۔کیونکہ عشق ہی شعر کا حقیقی محرک ہوتا ہے جس سے آوازِ دوست آتی ہے، عشق ہی انسانی جذبوں کی معراج ہے۔ علامہ اقبالؒ نے اس حقیقت سے اس طرح پردہ اٹھایا ہے کہ :
عشق نہ ہو تو شرع و دین بتکدۂ تصورات
داراشکوہ نے ’’سکینۃ الاولیاء ‘‘میں حضرت میاں میرؒ کے ہاں سماع کے اہتمام اور سماع کے ماحول کے علاوہ سماع سے حضرت میاں میرؒ کے چہرۂ مبارک پر تاثرات کا بھی جامع جائزہ پیش کیا ہے ۔
’’ حضرت میاں جیوؒ ( حضرت میاں میرؒ ) سماع بھی فرماتے تھے ،ہندی راگ کو خوب سمجھتے تھے اور اسے بہت پسند فرماتے تھے - قوال آتے تو ان سے سماع فرماتے، لیکن ایسا نہیں کہ قوال ہمیشہ ان کے پاس رہیں ، یا انہیں خود طلب فرمائیں، شریعت کی پیروی اور اپنے آپ پر ضبط ہونے کی وجہ سے وجد و رقص ہرگز نہیں کرتے تھے۔ سماع فرما کر جب خوش ہوتے تو خوشی ان کے روئے مبارک اور چہرۂ پرُنور پر ظاہر ہوتی۔ریش مبارک کے بال ایک ایک کرکے کھڑے ہو جاتے اور چہرۂ انورتمتما اٹھتا ، لیکن تمکین ووقار کا یہ عالم تھاکہ نہ کوئی حرکت صادر ہوتی ،نہ ہاتھ اٹھاتے‘‘۔(۱)
داراشکوہ مزید لکھتے ہیں کہ :
’’ ایک مرتبہ ایک شخص نے میاں جیوؒ سے سماع و وجد کے بارے میں دریافت کیا - جواب میں آپ نے شیخ سعدیؒ کے یہ شعر پڑھے ،جن کا ترجمہ یہ ہے،
’’ اگر میں سماع کرنے والے کو جان لوں کہ وہ کون ہے تو اے بھائی!میں تمہیں بتائوں کہ سماع کیا ہے ؟ اگر اس کا طائرِ خیال حقیقت کی بلندی سے پرواز کرے تو اس کی پرواز سے فرشتہ بھی عاجز آ جاتا ہے اور اگر اس کا مقصد لہو و لعب اور فریب کاری ہے تو اس سے اس کے دماغ کا شیطان قوی ہو جاتاہے ‘‘۔
تاہم داراشکوہ نے بتایا ہے کہ حضرت میاں میرؒ اور ان کے دوست سماع سے رغبت رکھتے تھے ، وہ لکھتے ہیں کہ :
’’ حضرت میاں جیوؒ کے سارے اصحاب سماع کرتے تھے، میرے شاہ صاحب ( ملا بدخشی ؒ )جب کسی باغ یاجنگل کی سیر کو جایا کرتے تو اگر قوال راستے میں مل جاتا یا شہر سے ہمراہ لے جاتے توسماع فرماتے۔ جس وقت بہت خوش ہوتے اٹھ کر وہاں سے چلے جاتے اور باغ میں جا کر حقائق معارف بیان فرماتے ، اور ماوراء النہر کے طریق پر فارسی میں نغمہ سرائی کیا کرتے اور بہت خوش ہوا کرتے تھے ،خوشحالی اور ُسرور جناب کے چہرۂ مبارک پر ظاہر ہوتا تھا ۔ بہت پیچ و تاب کھا کر سینے اور بازوؤں کوملا کرتے تھے اور حاضرین فقراء بھی سب کے سب خوش وقت ہوتے ۔کبھی رونے لگتے اور اپنے تئیں زمین پر دے مارتے اور عجیب حالت ظاہر ہوتی۔ ‘‘
فی الجملہ یہ کہنا چاہئیے کہ برعظیم پاک و ہند میں سلسلہ عالیہ قادریہ کے نامور بزرگ حضرت میاں میر ، بالا پیرؒ( لاہور) راگوں کے واقفِ اسرار تھے اور سماع سْن لیتے تھے - جبکہ سلسلہ سہروریہ کے نامور بزرگ حضرت بہائوالدین زکریا ملتانی ؒسے تو راگ بھیم پلاسی یاپوریادھناسری تک منسوب ہے کہ اس کے موجد آپؒ ہیں ۔معروفِ زمانہ قوالی جس نے مغرب میں اس کی دھوم مچا دی تھی :
دم مست قلندر ، مست ، مست
اسی راگ بھیم پلاسی کی بندش اور اثر کی قبولیت عامہ ہے -
داراشکوہ نے حضرت میاں میرؒ کے افکار وسوانح ’’ سکینتہ الاولیاء ‘‘میں لکھا ہے کہ :’’مشائخ کی وجد و سماع کے بارے میں مختلف آراء ہیں۔
حضرت سید الطائفہ شیخ جنیدؒ ، حضرت غوث الثقلین شیخ محی الدین عبدالقادرؒ ، شیخ الاسلام خواجہ عبداﷲ انصاریؒ اور بہت سے متقدمین اور حضرت میاں جیو (میاںمیرؒ ) اور میرے شیخ مُلّا شاہ ، اوربعض اکابر مثلاً امام العارفین ذوالنون مصریؒ، استاد المواحدین ابو سعید خرازی ؒ، ابوبکر شبلی ؒ ، ابوالحسن دراجؒ ، اورخواجہ قطب الدین ( بختیارکاکیؒ) وجد و سماع (کی کیفیت) میں اس جہاں سے گئے ہیں۔ ادھر ابو حمزہ خراسانی ؒ، ابو علی رود باریؒ ، ابوسعید ابوالخیرؒ ، صاحبِ کشف المحجوب سیّد علی ہجویری ؒ اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ مع بہت سے متقدمین اورمشائخ چشت کے، جیسے حضرت شیخ فرید الدین گنج شکرؒ اور سلطان المشائخ حضرت نظام الدین دہلوی ؒوجد و سماع کیا کرتے تھے۔جب حضرتِ نقشبندؒسے اس بارے میں پوچھا گیاتو آپ نے فرمایا کہ نہ ہم کرتے ہیں اورنہ ہمیں اس سے انکار ہے‘‘۔
سماع کے اہتمام اور انعقاد کے لیے کچھ شرائط ہیں کہ کلام پاکیزہ ہو حمد و نعت اور منقبت کی صورت میں ہو ، مقام اور ماحول پاکیزہ اور معطر ہو ، باوضو شرکت ضروری قرار دی گئی ہے ۔البتہ سلسلۂ چشتیہ میں بعض بزرگ سماع کے سرے سے قائل ہی نہیں تھے ، حالانکہ ان کی طریقت کا تقاضا تو یہی تھا کہ وہ سماع کا اہتمام کرتے ، مگر دین چونکہ فطرت ہے اس لیے اس میں جبر نہیں ہے ،جبکہ شریعت ضابطہ بلکہ پابندی ہے اور یہی دین و شریعت کا حقیقی فرق ہے - جبکہ روح عصر اور ماحولی صورتیں تصوف و طریقت کی روح ہیں، کسی دور میں سماع عام ہے تو کسی دور میں محدود ۔ یہ حکمرانِ وقت کے مزاج اور وقت کے شیخ کے مزاج کے روحانی اسرار و رموز کا سلسلہ ہے ، جو علم و عقل کی روایات اور عقلی و نقلی علوم کی جرح و تعدیل کے دائرے سے یکسر باہر بات ہے۔