• news

امریکی ناظم الامور کی طلبی، ٹرمپ کے الزامات پر احتجاج

اسلام آباد (سٹاف رپورٹر، آن لائن، اے این این) اسلام آباد میں متعین امریکی ناظم الامور کو منگل کے روز دفتر خارجہ طلب کرکے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے پاکستان کے بارے میں غیر ضروری بیانات اور بے بنیاد الزامات پر شدید احتجاج کیا گیا ہے۔ دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے امریکی ناظم الامور پال جونز کو طلب کرکے احتجاجی مراسلہ ان کے حوالے کیا۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان اور ٹویٹ میں پاکستان پر بے بنیاد الزامات عائد کئے گئے ہیں، جو پاکستان کیلئے سراسر ناقابل قبول ہیں اور انہیں مسترد کیا جاتا ہے۔ خارجہ سیکرٹری نے امریکی ناظم الامور کو یاد دلایا کہ پاکستان کے انٹیلی جنس تعاون کی بنیاد پر ہی امریکہ کو اسامہ بن لادن کی موجودگی کے بارے میں ابتدائی شواہد ملے تھے، کسی اور ملک نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان سے زیادہ قیمت ادا نہیں کی۔ خود امریکی انتظامیہ نے متعدد مواقع پر تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کے تعاون کی وجہ سے القاعدہ کی قیادت اور خطہ سے دہشت گردی کے انسداد میں کامیابی ملی ہے۔ امریکہ اس حقیقت کو فراموش نہ کرے کہ درجنوں القاعدہ رہنما اور دہشت گرد پاکستانی اداروں کی کارروائیوں کے دوران پکڑے گئے یا مارے گئے۔ افغانستان میں عالمی برادری کیلئے پاکستان نے اپنے زمینی، سمندری اور فضائی راستے فراہم کئے جنہوں نے افغانستان میں کامیابی کیلئے کلیدی کردار ادا کیا۔ افغانستان میں قیام امن کیلئے امریکہ اور پاکستان نے خطہ کے ملکوں کے ساتھ مل کر کام کیا۔ امریکہ کے بے بنیاد الزامات عائد کرنے سے افغانستان میں ہمارے اہم تعاون کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ کے حالیہ بیانات پر مایوسی ہوئی، اس قسم کی ہرزہ سرائی بے بنیاد اور ناقابل قبول ہے۔ خطے کو دہشت گردی سے پاک کرنے کیلئے پاکستان کی کوششیں ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ دوسری جانب وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے کہا ہے کہ ہم نے نہیں دیکھنا کہ دنیا کیا کہہ رہی ہے بلکہ ہمیں اپنے مفادات کو دیکھنا ہے۔ اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے شہریار آفریدی کا کہنا تھا کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں دی ہیں دنیا ہماری قربانیوں کو تسلیم کرے۔ ہر حکمران اور ریاست کو اپنی سوچ اور بات کہنے کی آزادی ہے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ نے کہا کہ ہم نے دنیا اور انسانیت کو باور کرانا ہے کہ ہماری قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی اور ہمیں یہ نہیں دیکھنا کہ دنیا کیا کہہ رہی ہے بلکہ ہمیں اپنے مفادات کو دیکھنا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن