ملک کا مستقبل طاغوتی قوتیں طے کرینگی یا پارلیمنٹ‘ کوئی قوت آئین کے تابع نہیں تو غدار ہے : سپریم کورٹ
اسلام آباد (نوائے وقت نیوز) سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس میں فیصلہ محفوظ کرلیا ہے جو مناسب وقت پر سنایاجائے گا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاہے کہ ججز ،اٹارنی جنرل اور آئی ایس آئی سمیت ہر کوئی ریاست کا ملازم ہے۔لیکن ریاست کے ملازم حکمرانوں کے غلام بنے ہوئے ہیں،ملک کی ہر قوت آئین پاکستان کے تابع ہے، آگے بڑھ کر کہتا ہوں اگر کوئی قوت آئین کے تابع نہیں تو وہ غدار ہے۔جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے فیض آباد دھرنے سے متعلق از خودنوٹس کیس کی سماعت کا آغا ز کیا تو ڈپٹی اٹارنی جنرل سہیل محمود نے بتایا کہ اٹارنی جنرل ای سی سی کے اجلاس میں گئے ہیں کیونکہ وزیر اعظم نے انہیں بلایا تھا۔جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی ٰنے آبزرویشن دی کہ اٹارنی جنرل کا ای سی سی سے کیا تعلق ہے ، ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہاکہ اٹارنی جنرل عدالت میں آنے کی تیاری کررہے تھے تاہم وزیر اعظم نے انہیں طلب کر لیا ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ کیا وزیر اعظم سپریم کورٹ سے اہم ہیں؟اٹارنی جنرل کوتوہین عدالت کا نوٹس کیوں نہ جاری کیا جائے۔اٹارنی جنرل کے کہنے پر ہم نے کیس 11 بجے رکھا ۔اٹارنی جنرل عدالت کی بے توقیری کر رہے کیا یہ مذاق ہے۔اٹارنی جنرل کے فرائض میں عدالتی کام ہیں وزیر اعظم کے کام نہیں۔حکمنامے میں اٹارنی جنرل کیخلاف آبزرویشن دیں گے۔ بتائیں کہ کیا اٹارنی جنرل کاعدالت کے ساتھ رویہ مناسب ہے۔ وزیر اعظم نے بلا لیا تو کیا آفت آ گئی؟کیا اٹارنی جنرل وزیر اعظم کے تابع ہیں۔اٹارنی جنرل کہہ سکتے تھے کہ عدالت میں کیس مقرر ہے۔کیااب وزیر اعظم کے کہنے پر کیس ملتوی کر دیں ،کیا وزیر اعظم قانون سے بالا تر ہے؟کیا اب ہم وزیر اعظم کو طلب کر لیں؟ بے حسی کی انتہا ہے۔اگر میں اٹارنی جنرل ہوتا تو استعفیٰ دے دیتا۔ سمجھ نہیں آتی ریاستی عہدیدار اقتدار میں ہوتے ہوئے کسی کے ملازم کیوں بن جاتے ہیں۔عوام کے پیسے سے تنخواہیں دی جاتی ہیں۔جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ کیاآئی ایس آئی ، پیمرا اور الیکشن کمشن کی رپورٹس آگئی ہیں۔ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ عدالتی حکم کے مطابق رپورٹس جمع کرا دی ہیں آئی ایس آئی کی رپورٹ سربمہر ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے رپورٹس کی صرف ایک کاپی جمع کرانے پر بھی اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ بینچ میں دو جج ہیں تو ایک کاپی کیوں دی گئی ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو پاکستان کا خیال نہیں۔ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہاکہ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ رپورٹ خفیہ کیوں ہے ؟کیا آئی ایس آئی کا مینڈیٹ خفیہ ہے؟سیکرٹری دفاع کیوں پیش نہیں ہوئے۔جسٹس مشیر عالم نے کہاکہ وہ بھی ای سی سی میں گئے ہونگے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہاکہ آئی ایس آئی کی رپورٹس کی کاپی میرے پاس نہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہاکہ آئی ایس آئی کے مینڈیٹ بارے جواب کی ایک کاپی کیوں فراہم کی گئی۔اس موقع پر اٹارنی جنرل بھی پیش ہوگئے تو عدالت نے آئی ایس آئی مینڈیٹ متعلق رپورٹ اٹارنی جنرل کو فراہم کر تے ہوئے ہدایت کی کہ بیٹھ کررپورٹ پڑھیں اور بتائیں کہ اس میں کوئی خفیہ بات ہے؟اٹارنی جنرل نے کہاکہ یہ رپورٹ خفیہ ہے اس کی چیمبر میںسماعت کرلی جائے۔ پیمرا کے وکیل نے بتایا کہ عدالت کا 16 نومبر کا حکمنامہ آج موصول ہوا تاہم رپورٹ جمع کرا چکے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ہم ایک ایسی ریاست میں رہ رہے ہیں جہاں میڈیا کنڑول ہے، پک اینڈ چوز کیا جاتا ہے کیا ایسا ملک ہم اپنے بچوں کو دے کر جائیں گے اگر آئین کی شق 19پر عمل نہیں کرنا تو پارلیمنٹ اس کو آئین سے نکال دے، عدالت میں جھوٹ پر جھوٹ بولاجاتاہے اور کسی کو شرم تک نہیں آتی۔کیا ہم جھوٹ بولنے والوں کی ریاست میں رہ رہے ہیں،آدھا ملک ہم نے کھو دیا۔ یہ پولیس کی ریاست ہے یا کیا ہے۔یہ کونسی قوت ہے جو معاملات چلا رہی ہے سب خوف بنے بیٹھے ہیں کس لئے آزادی حاصل کی گئی تھی ،پاکستان میڈلز لینے کےلئے حاصل نہیں کیا گیا تھا، ہم نے آزادی سے رہنے کےلئے وطن حاصل کیا لیکن ہمیں بھی یہاں خوف آتا ہے ملک کو کیاکردیا گیا اور مزید کیا کرتے جارہے ہیں ایسی صورتحال میں ہمیں کیا کرنا چاہیئے۔ عدالت نے سیکرٹری الیکشن کمشن بابریعقوب فتح محمد سے استفسار کیاکہ کیاانہوں نے اپنے ڈی جی لاءکا موقف سنا کہ انہوں نے کہاکہ الیکشن کمشن کا قانون کاسمیٹک قانون ہے ؟بتائیں کہ کیاالیکشن کمشن کا بھی یہی موقف ہے ؟ سیکرٹری الیکشن کمشن نے بتایا کہ ڈی جی کا موقف ادارے کا موقف نہیں ہے ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیاکہ اگر کوئی سیاسی جماعت الیکشن کمشن کے نوٹس پر جواب دے کہ الیکشن کمشن جہنم میں جائے تو الیکشن کمشن کیا کرے گا ، کیا یہ کہے گا کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے ۔ سیکرٹری کا کہنا تھا کہ الیکشن کمشن کے پاس اختیارات موجود ہیں اور الیکشن کمشن نے کئی معاملات میں اختیارات استعمال کئے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ اگرکوئی جماعت معلومات فراہم نہ کرے توالیکشن کمشن اس کے خلاف کاروائی کر سکتا ہے؟کیا ریاست قانون ہاتھ میں نے لینے والوں کی مدد کرے گی؟ کیا اگر کوئی جماعت تفصیلات فراہم نہ کرے تو اسکو مقامی فنڈیڈ تصور کر لیا جائے۔کوئی تفصیلات فراہم کرے گا تو فیصلہ ہو گا غیر ملکی فنڈنگ ہے یا نہیں۔اگر اٹارنی جنرل الیکشن کمشن کے موقف کی حمایت کرتے ہیں تو لکھ لیتے پیں ۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ صرف یہ کہہ رہا ہوں قانون میں ایسا کچھ نہیں قانون کے مطابق ہی کام کرنا ہے۔ جسٹس قاضی فائزنے کہاکہ اگر کوئی الیکشن کمشن کے نوٹیفیکیشن کا جواب نہیں دیتا تو کمشن کچھ نہیں کر سکتا۔ پاکستان کے قانون کا مذاق کیوں بنا رہے ہیں۔الیکشن کمشن کے مطابق تحریک لبیک نے قانون کے مطابق عمل نہیں کیا۔سیکرٹری الیکشن کمشن نے بتایاکہ وزارت داخلہ کو تحریک لبیک کے عہدے داروں کی فہرست جانچنے کے لیے دی ہے۔ جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ شخصیات کی بات نہیں کر رہے ممبر تو کوئی بھی بن سکتا ہے۔ حکومت کی ذمہ داری اپنی جگہ الیکشن کمشن کی اپنی جگہ ہے۔قانون عوام کے لیے بنایا جاتا ہے لیکن قانون پر عمل کی بجائے اسکو ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے۔ایسی صورتحال میں کیا شریف لوگ ملک چھوڑ کر چلے جائیں۔ملک گولی سے نہیں بنا مگر اس کے باوجود ہر کوئی خوف زدہ ہے۔میری سمجھ کے مطابق نائیک کوپ کارڈ رکھنے والا شیخص سیاسی جماعت بنا سکتا ہے۔ پارٹی سربراہ بن سکتا ہے لیکن لیکن صرف الیکشن نہیں لڑ سکتا۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ قانون کے مطابق پرامن احتجاج ہر شہری کا حق ہے ۔ لیکن جہاں خطرہ ہو وہاں اجازت نہیں دی جاسکتی۔ جسٹس قاضی فائز نے استفسار کیاکہ میڈیا پر پابندی کے حوالے سے اٹارنی جنرل کی کیا رائے ہے؟کیا ان دیکھی قوتوں نے پاکستان میں سینسر شپ لگا دی،میرا خدشہ اس ملک کا مستقبل ہے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اگر چینل کی شکایت ائے تو اس پر فوری کاروائی ہونی چاہیے۔ جسٹس قاضی فائز نے پھر سوال کیا کہ کیا آپ بھی کہیں گیے کہ تمام بنیادی حقوق مصنوعی ہیں؟ملک کا مستقبل طاغوتی قوتوں نے طے کرنا ہے یا پارلیمنٹ نے؟ اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ کراچی میں 12 مئی کے واقعہ کو میں پر امن نہیں کہہ سکتا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک نے دھرنے دیئے، پی ٹی آئی والوں نے دھرنا میں دھاندلی کی بنیاد پر کمشن بنانے کا کہا۔اس وقت کے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمشن بنااور کمشن نے کہا دھاندلی نہیں ہوئی،کیا پی ٹی آئی نے اس پر معافی مانگی۔کیا ججز کو روکنے پر دھرنے والوں کو معافی مانگنی چاہیے.؟یہ عوام اور ملک کا نقصان ہوا۔ جسٹس قاضی عیسی نے اٹارنی جنرل سے استفسارکیا کہ کیا آئی ایس آئی کا جواب آپ نے پڑھ لیا ہے ،کیا وہ خفیہ دستاویزات ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ اسکا جواب چیمبر میں دوں گا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہاکہ اس کاآپ تحریری جواب دیں کیونکہ جو جواب لکھا گیا ہے وہ ایک عدالتی فیصلے میں شامل ہے۔ ہر ملک میں خفیہ ایجنسیوں کا مینڈیٹ ہوتا ہے۔ کیا آئی ایس آئی اپنے مینڈیٹ سے ہٹ کر کام کر سکتی ہے ؟آئی ایس آئی کا بھی تو کوئی مینڈیٹ ہو گا؟ اٹارنی جنرل نے کہاکہ ایف بی آئی بھی اپنے مینڈیٹ پر عمل نہیں کرتی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ 12 بارہ مئی کو کراچی میںکیا ہوا ۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ معزز جج چیف جسٹس کو کراچی داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ ایم کیوایم کے احتجاج کے نتیجے میں بہت سے لوگ مارے گئے ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسارکیاکہ کیا ایم کیوایم نے خود یہ سب کچھ کیا؟۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس امرکا تعین کرنا ہو گا۔ مسئلہ یہ ہے کیس عدالت میں ہے یہاں بیان نہیں دے سکتے۔ جسٹس قاضی فائز نے سوال کیا کہ بارہ مئی کو کتنے لوگ مارے گئے تھے ،اٹارنی جنرل نے کہاکہ تعداد کافی تھی میں اس وقت ایڈووکیٹ جنرل تھا۔ جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ مقدمہ درج کرانے والے کو تھانے دار ہر روز بلا لیتا ہے، آزادی اظہار رائے پر عمل نہ کرنے کے بھی کوئی نتائج تو نہیں؟
فیصل آباد دھرنا کیس