تیرگی بھی کم نہیں ہے روشنی بھی کم نہیں
ماضی میں اُردو زبان کے لئے کئی لوگ اپنی توفیق کے مطابق کچھ نہ کچھ کوشش کرتے رہے ہیں مگر اُن کا انداز مدافعانہ تھا لہٰذا جو کچھ بھی ہوا وہ نہ ہونے کے برابر ہے جو کچھ ہوا وہ اپنے آپ ہی ہو گیا۔ لگتا ہے کہ اب اُردو کے بغیر گزارا نہیں ہے۔ پھر بھی ابھی غلامانہ ذہنیت کے لوگ انگریزی کو اپنا ’’لسانی ایمان‘‘ بنائے ہوئے ہیں۔
ان دنوں ایک بہادر اور جنونی خاتون فاطمہ قمر باقاعدہ مہم چلائے ہوئے ہے اور یہ تحریک پھر بیدار ہو گئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اب اس کاکوئی موثر نتیجہ نکلے گا۔ فاطمہ چھوٹے معاملات پر بھی نظر رکھتی ہے اور انہیں سامنے لانے سے نہیں ہچکچاتی۔ یہ ہمارا قرض ہے مگر سب لوگوں کا کام وہ اکیلی خاتون کر رہی ہے۔ ہم سچے دل سے اس کے شکرگزار ہیں اور اس کے ساتھ ہیں۔
عالمی اُردو کانفرنس کے دعوت نامے انگریزی زبان میں شائع ہوتے ہیں۔ یہ قدم شرمناک ہے اور سوچنے کی دعوت بھی دیتا ہے۔ بہت غصے میں فاطمہ نے ایک پیغام موبائیل نیٹ ورک کے ذریعے دردمندانہ اور جرأت مندانہ انداز میں اُردو زبان سے محبت کرنے والوںکو بھیجا ہے۔ بہت سخت زبان میں ایک جائز بات فاطمہ قمر نے کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اُردو کی تذلیل میں ان لوگوں کا اہم کردار ہے جو اُردو کے حوالے سے نوکری (ملازمت) کے بھیس میں انگریزی کی غلامی کرتے ہیں بلکہ انگریز کے اب بھی غلام ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اُردو کے حوالے سے ملازم لوگ اُردو کو اس قابل بھی نہیں بنا سکتے کہ عالمی اُردو کانفرنس کے لئے دعوت نامہ ہی اُردو میں شائع کروا سکیں۔ وہ اس زبان میں ادب کس کے لئے تخلیق کر رہے ہیں وہ کس خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔ یہ ادب پڑھے گا کون؟
عالمی اُردو کانفرنس کے حوالے سے یہ انتہائی اذیت اور ذلت کی بات ہے۔ اس پر غور و فکر کرنا چاہئے۔ بلکہ فکر مندی میں مبتلا ہوجانا چاہئے۔ عالمی اُردو کانفرنس کرانے والوں کو ذرہ بھر احساس نہیں ہوا کہ اس سے دنیا والے کیا تاثر قائم کریں گے اور اس طرح اُردو زبان کی کیا خدمت ہو گی؟
ان لوگوںکو ایک لطیفہ سنانا چاہتا ہوں ایک ڈاکو نے ساتھ کھڑے ہوئے آدمی سے پوچھا کہ ڈاکہ ڈالتے ہوئے تم نے مجھے دیکھا ہے۔ اُس نے کہا کہ ہاں میں نے دیکھا ہے۔ ڈاکو نے اُسے گولی مار دی جب دوسرے آدمی سے ڈاکو نے پوچھا تو اس نے کہا کہ میں نے تو نہیں دیکھا مگر میری بیوی ساتھ کھڑی ہے۔ اُس نے دیکھا ہے۔ شوہرصاحب بتائیں کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ ہیں یا ڈاکو کے ساتھ ہیں۔ عالمی اُردو کانفرنس کے لئے انگریزی میں دعوت نامہ شائع کروانے والوں سے پوچھا جا سکتا ہے کہ آپ اُردو کے حامی ہو یا انگریزی کے لئے کام کر رہے ہو؟ ہمارے ملک میں لوگ کچھ نہ کچھ کام کرتے ہیں نجانے کیا کام کرتے ہیں اور کس کے لئے کام کرتے ہیں۔
برادرم ذوالفقار چیمہ محکمہ پولیس میں انسپکٹر جنرل کی سطح کے پولیس افسر تھے۔ ان کا نام اس محکمے کی نیک نامی کیلئے ایک مثال ہے۔ وہ ایک دانشور بھی ہیں۔ ان کی تقریر جو بھی سن لیتا ہے‘ وہ ساری عمر کیلئے ان کا معترف ہو جاتا ہے۔ میرے مرحوم ابا جی محکمہ پولیس سے انسپکٹر ریٹائر ہوئے۔ وہ ایک دفعہ بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کے شہر خان گڑھ تھانہ میں ایس ایچ او تھے۔ ایس پی مظفر گڑھ نے بابائے جمہوریت سے پوچھا کہ آجکل تھانہ خان گڑھ میں ایک نیازی صاحب ہیں۔ ان کے بارے میں کیا خیال ہے تو انہوںنے جو کہا وہ ایک ریکارڈ کی طرح یاد رکھی جانے والی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے لوگ بھولے سے اس محکمے میں آجاتے ہیں۔
چیمہ صاحب ایک درمندی کے ساتھ اس محکمے میں آئے۔ وہ بہت بڑے پولیس افسر تھے مگر انہیں آئی جی پولیس نہ بنایا گیا۔ اس کا مجھے ذاتی طور پر افسوس ہے ورنہ اس محکمے میں خوشخبری کی طرح ایک تبدیلی آتی۔ ذوالفقار چیمہ نے جشن میلادالنبیؐ کے حوالے سے کہا کہ نبیؐ کے پیروکار راستے کھولتے ہیں۔ راستے بند نہیں کرتے۔ یہ ہر مہذب ملک کی نشانی ہے۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ موٹروے ملک کی لائف لائن ہے۔ چیمہ صاحب موٹروے پولیس کے سربراہ بھی رہے ہیں۔
ہماری سیاست کے دائرے میں برادرم پرویز ملک اور شائستہ پرویز ملک سیدھے راستے کی طرح ہیں۔ دونوں میاں بیوی بہت مروت‘ محبت والے ہیں۔
ان کیلئے مسلم لیگ کے دوستانہ حلقوں سے ہمیشہ اچھی خبریں آتی ہیں۔ ایسے لوگ سیاست میں ہونا چاہئیں جن کو آسانی سے ملا جاسکے۔ انہیں اپنی بات کہی جا سکے۔ ہمارے سیاسی کلچر میں اس بات کا بہت چرچا ہے کہ یہ لیڈر لوگ بات نہیں سنتے۔ ہم اگر اپنے لوگوں کی بات سننے کا ماحول بنالیں تو بہت سے مسائل ختم ہو جائیں۔ آپ توجہ تو دیں کہ کوئی آپ کے ساتھ کیا بات کرنا چاہتا ہے۔
بہت محنت کرنے والے اور دکھ سکھ میں شریک ہونے والے بڑے بھائی کی طرح ہماری ادبی دنیا میں ایک شخص اے جی جوش تھے۔ وہ جوش ملیح آبادی سے کم معروف اپنے زمانے میں نہ تھے۔ ایک بار جوش صاحب نے کہا کہ جوش تو وہی تھے‘ میں لاہور کا جوش ہوں۔ وہ ان سب سے بہت تعلق رکھتے تھے۔ ان کا گھر آپ سے وابستہ ہم جیسوں کیلئے ایک ٹھکانے کی طرح تھا۔ انہوں نے ایک ادبی رسالہ شائع کرنا شروع کیا جس کا نام ’’ادب دوست‘‘ رکھا۔ وہ خود بھی ادب دوست شخصیت تھے۔ اب ان کے ایک بہت قابل قدر بیٹے خالد تاج باقاعدگی سے یہ رسالہ چھاپتے ہیں۔ یہ رسالہ مجھے ملتا ہے تو لگتا ہے کہ اے جی جوش سے ملاقات ہوئی ہے۔
اس زمانے میں کسی ادبی رسالے کی باقاعدہ اشاعت کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ تازہ پرچے میں عزیزہ لبنیٰ صفدر کی ایک شاندار غزل اور تسنیم کوثر کی ایک بہت اعلیٰ نظم شائع ہوئی ہے۔ تسنیم کوثر کی دو لائنیں؎
مگر یادوں کے پلو میں یہ جتنے بھی ستارے ہیں
وہ سب کے سب تمہارے ہیں
لبنیٰ صفدر کہتی ہے؎
تیرگی بھی کم نہیں ہے روشنی بھی کم نہیں
موت بھی چاروں طرف سے زندگی بھی کم نہیں
کیسے دوراہے پہ انسان آگیا ہے آجکل
جانتا بھی کچھ نہیں تو آگہی بھی کم نہیں