• news
  • image

عدلیہ ہی بالادست ہے!

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد درحقیقت باطل اور فرسودہ نظام ہائے زندگی پر کاری ضرب اور ایسے نظام کی بنیاد تھی کہ جہاں انصاف، برابری اورمساوات کو فروغ ملے۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہی اوصاف جب مسلمان آگے لے کر بڑھے تو فاتحین کے طور پر اُبھرے۔ سندھ میں محمد بن قاسم کی فتح کی وجہ اُسکی بے پناہ طاقت نہیں تھی۔ تین ہزار کی جمعیت میں آگے بڑھنے والے نوجوان نے پورا سندھ فتح کر ڈالا، کیونکہ وہ اپنے ساتھ مساوات، رواداری اور انصاف جیسے اصول لے کر گیا۔ سندھ کے لوگ اِس بات پر متحیر تھے کہ کیا اُن کو بھی وہ حقوق مل سکتے ہیں جو کہ اس سے قبل حکمران طبقہ، امراء روساء اور اُونچی ذات کے لوگوں کو حاصل تھے۔ ساٹھ کی دہائیوں میں رچرڈ ہالپرن کی ایک کتاب سامنے آئی۔ جس میں اُس نے تجزیہ کیا کہ وہ کیا محرکات ہیں کہ باہمی انتشار کے باوجود تمام مسلمان ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جاتے ہیں۔ اُس کو یہ جواب ملا کہ وہ عناصر ’’روح محمدؐ اور جذبہ جہاد‘‘ ہے۔ مغربی دنیا نے ان دو محرکات پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دئیے۔ روحِ محمدؐ اور جذبہ جہاد ہی وہ عناصر تھے کہ جس نے طارق بن زیاد کو کشتیاں جلانے پر مجبور کر دیا ۔ یہ جذبہ جہاد ہی تھا کہ اشبیلیہ ، غرناطہ اور قرطبہ جیسی عظیم ریاستیں مسلمانوں کے قدموں میں تھی۔ یہ مسلمانوں کی عسکری برتری ہی تھی کہ سومنات پر سترہ حملوں نے بت پرستوں پر یہ واضح کر دیا کہ مذہبِ اسلام تنظیمی، سیاسی ، اقتصادی اور معاشرتی طور پر ایک سچا اور مضبوط مذہب ہے۔ اسلامی ریاست کیا ہو گی۔ ایک حکمران کے کیا فرائض ہوں گے اور وہاں پر مسلمانوں کے کیا حقوق ہوں گے۔ میثاقِ مدینہ اور خطبہ حجتہ الوداع کے منشور اس پر واضح اور مدلل جواب ہیں۔ آپؐ فرماتے ہیں کہ حاکم رعیت میں ایسا ہے ’’جیسے روح جسم میں ‘‘ لہٰذا جسم اُسی وقت تک تندرست و توانا رہ سکتا ہے جب تک روح موجود رہے۔اسی لئے خلیفہ کے وہ اوصاف مقرر کر دئیے گئے کہ ایک بہترین معاشرہ کی بنیاد رکھی جا سکے۔ ان اوصاف میں اس کا مُتقی ہونا، علم و حواس اور اعضا کی سلامتی امین اور کفایت شعار ہونا لازمی ہے۔ اسلام جمہوریت کا حامی ہے۔ اس لئے خلیفہ یا حکمران کو عوام کے سامنے جواب دہ ہونا چاہئے۔ آنحضورؐ نے فرمایا کہ معصیت یعنی گناہ کے کاموں میں کوئی فرمانبرداری نہیں اطاعت صرف نیکی میں ہے۔ حضرت ابوبکر نے اپنے خطبہ میں فرمایا تھا کہ ’’ میری اطاعت صرف اس وقت تک کرو جب تک میں اللہ اور اس کے احکام کی پابندی کروں ۔ اگر میں ذرہ بھر بھی صراط مستقیم سے ہٹوں تو مجھے سیدھا کرنا ‘‘ ۔ سیاسی نظام ہو یا اقتصادی نظام ایک مربوط اور مکمل نظام صرف آپؐ کا عطا کردہ ہے۔ ابتدائے آفرینش سے ہی قوم کی رشد و ہدایت کے لئے نبی آتے رہے اور ان کی ضرورت کے مطابق احکامات لاتے رہے۔ صرف اسلام ہی ایک ایسا دین ہے کہ جس نے عالمگیر ہونے کا دعویٰ کیا۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ ہر نبی اپنی خاص قوم کی طرف بھیجا گیا تھا اور میں تمام سرخ و سیاہ قوتوں کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ اس کی وجہ اکمل تعلیم ، بین الاقوامی اتحاد اور ایک محرک یہ بھی تھا کہ اسلام سرچشمہ ہدایت ہے اور تمام انسانوں کو برابری کی سطح پر لاکھڑا کرتا ہے۔آج دنیا کے تمام مفکر اس بات پر متفق ہیں کہ قومیت ہی تباہی کا موجب ہے ۔ چنانچہ ہکسے نے لکھا کہ قومیت پرستی اخلاقی تباہی کاسبب ہے کیونکہ یہ عالمگیریت کے تصور کے منافی ہے اور ایک خدا کے انکار پر مبنی ہے۔ اور یہ انسانوں کی قیمت بحیثیت انسان کچھ نہیں سمجھتی۔ دوسری طرف یہ تفرقہ انگیزی کا موجب ، انانیت اور تکبر پیدا کرتی ہے۔ باہمی نفرت بڑھاتی ہے اور جنگ کو نہ صرف ضروری بلکہ مقدس بھی ٹھہراتی ہے ۔ مذہب اسلام عالمگیر مذہب اور تمام بنی نوع انسان کے لئے بغیر کسی رنگ و نسل کے سلامتی اور فلاح کا موجب ہے آپؐ نے ہر قسم کے تعصبات کو ختم کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ کسی عربی کو عجمی پر عجمی کو عربی پر سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر برتری نہیں ۔ اور اگر برتری ہے تو تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔آج ہم مسلمان باہمی انتشار کا شکار کیوں ہیں اگر ہم ان تعلیمات کو اپنے اوپر واجب کر لیں جو کہ آپؐ نے ہمیں دی ہیں تو نہ صرف باہمی اتحاد کو فروغ دیا جا سکتا ہے بلکہ مغرب کی ہر یلغار کا مقابلہ کرتے ہوئے پر امن معاشرے کی تشکیل دی جا سکتی ہے ۔علامہ شبلی نے فرمایا کہ ترقی یہ نہیں کہ آگے بڑھتے جائو ، بلکہ ترقی یہ ہے کہ اتنا پیچھے ہٹو کہ قرونِ اولیٰ کے دور تک پہنچ جائو، جو ہماری اصل میراث ہے۔

سید روح الامین....برسرمطلب

سید روح الامین....برسرمطلب

epaper

ای پیپر-دی نیشن