امریکہ کے بے بنیا دالزامات
بین الاقوامی تعلقات ہر ملک کے قومی مفاد پر قائم ہوتے ہیں اور اس میں رنگ نسل اور مذہب کی تفریق نہیں ہوا کرتی۔ ایک دوسرے سے وابستہ مفادات کی نوعیت کی بنیاد پر ہی ان دوستوں کی گہرائی بھی ناپی جاتی ہے۔ اس مفاد کا تعین وزارت خارجہ، فوج کے نمائندے اور مقننہ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ امریکہ پاکستان کے تعلقات اور مفادات کا جائزہ لیتے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ ابتدائی طور پر امریکہ کے کوئی مفادات وابستہ نہیں تھے لیکن وقت کے ساتھ ایک دوسرے کے مفادات کے پیش نظر ایک دوسرے کی ضرورت بڑھنے لیگی، یہاں معاملہ بین الاقوامی سطح پر تعلقات کو دوستی کا رنگ نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی اتنے برس گزر جانے کے باوجود پاکستان اور پاکستان کے عوام نے امریکہ کو اچھے اور مخلص دوست کی نظر سے قبول کیا اور نہ امریکہ نے ایسا کردار ادا کیا جس سے اس کے خلوص کو ناپا جاسکتا۔ ظاہر ہے کہ پاکستان کی مجبوری قرضہ جات رہی اور امریکہ نے پاکستان کو جغرافیائی مفادات کے لئے استعمال کیا۔ اگرچہ پاکستان اور امریکہ کے نرم گرم تعلقات کی تاریخ صرف افغانستان تک محدود نہیں لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے آتے ساتھ ہی پاکستان مخالف بیان دینا شروع کردیئے اور سابقہ ان تمام احسانات کو یکسر بھلا دیا جو افغان جنگ کے لئے پاکستان نے امریکہ پر کئے تھے اس کے بدلے پاکستان کو کتنا نقصان ہوا اور کتنا فائدہ اس کا جائزہ تو ہم آگے جاکر لیں گے لیکن اس سے پہلے ہم اس سال ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان مخالف وقتا فوقتا دیئے گئے بیانات کو دیکھ لیتے ہیں۔ آج اگست2017ء صدارت میں آنے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی ماہ کی تاخیر کے بعد جنوبی ایشیاء کے بارے میں اپنے پہلے خطاب میں پاکستان کو تنبیہہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ اب پاکستان میں دہشت گردوں کی قائم پناہ گاہوں کے معاملے پر مزید خاموش نہیں رہ سکتا یعنی یہ تو سیدھا الزام ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے اور پناہ گاہیں فراہم کر نے سے مراد پورا پاکستان ہی دہشت گرد اور دہشت گردوں کا ساتھی قرار پایا۔13اکتوبر2017ء کو صدر ٹرمپ کی جانب سے امریکی شہری کولمین ان کے شوہر اور تین بچوں کو افغان طالبان سے بازیاب کرانے پر پاکستان کی تعریف کی اور اس موقع پر ٹرمپ صاحب کا کہنا تھا کہ آج وہ آزاد ہیں یہ پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات میں ایک مثبت لمحہ ہے۔ ہم باقی یرغمالیوں کی بازیابی اور دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کارروائیوں میں اس طرز کے تعاون کی اْمید کرتے ہیں۔ یہاں ٹرمپ صاحب کو اچانک پاکستان کی اہمیت کا احساس ہوگیا۔9نومبر2017ء افغانستان میں نیٹو کی قیادت میں موجود اتحادی افواج کے کمانڈر جنرل جان نکولیلن کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کی افغانستان سے متعلق پالیسی کے اعلان کے بعد سے پاکستان کے رویئے میں کسی تبدیلی کے آثار نہیں دیکھے گئے یعنی یہاں بھی پاکستان کے وجود کو تسلیم کیا اور سراہا۔24نومبر2017ء کو جماعت الدعوۃ کے رہنما حافظ سعید کی عدالت کے حکم پر نظر بندی کے خاتمے کے ردعمل میں امریکہ نے اپنی ناراضی کا اظہار کچھ یوں کیا کہا’’لشکر طیبہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے اور پاکستانی حکومت کو چاہئے کہ وہ انہیں گرفتار کرکے ان پر مقدمہ چلائے امریکہ حکومت کے متضاد رویئے رہے ہیں لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ کے بعض حلقوں کی جانب سے پاکستان کی کاوشوں کو سراہا بھی گیا۔ خاص کر امریکہ وزیرخارجہ اس میں کھلے دل سے مظاہرہ کرتے پائے گئے۔ مثل مشہور ہے کہ بھینسوں کی لڑائی میں نقصان ہمیشہ گھاس کا ہوتا ہے۔ کچھ یہی صورتحال امریکہ پاکستان کی افغان جنگ کے حوالے سے رہی ہے اور یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ گھاس پاکستان کو بننا پڑا۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو سرد جنگ اور گیارہ ستمبر9/11کے بعد شروع ہونے والی جنگوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارا حال وہی ہوا ہے جو گھاس کا ہوا کرتا ہے۔ پاک امریکہ تعلقات کو جاننے کیلئے تاریخ پر نظر ڈالنا ہوگی۔ دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر تاج برطانیہ کے خزانے اس قابل نہ تھے کہ سلطنت کا بوجھ اْٹھا سکیں دوسری طرف امریکہ سے لیا گیا قرضہ بھی ان کیلئے درد سر بن چکا تھا۔ ان حالات میں ہندوستان کو آزاد کرنا برطانیہ کی مجبوری تھی جس کی حمایت امریکی صدر نے کی۔ اب ان حالات میں دنیا میں دو بڑی قوتیں موجود تھیں۔ امریکہ اور روس۔ ان ادوار می Colonial States Postجن میں پاکستان، بھارت، سری لنکا، ملائیشیا اور انڈونیشیا کے بیشتر ممالک تھے ان دوقطبین میں سے ایک کا انتخاب کرنا ضروری تھا۔ محمد علی جناح کا رجحان بعض وجوہات کی بناء پر امریکہ کی جانب تھا۔
تازہ ترین بیان میں ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکہ نے پچھلے15برسوں میں پاکستان کو33ارب ڈالر سے زائد کی رقم ادا کی ہے۔ اور اسکے بدلے میں انہوں نے ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا۔ وہ سوچتے ہیں ہمارے رہنما بے وقوف ہیں۔ ٹرمپ کو یہ نہیں پتہ کہ نائن الیون میں پاکستان ملوث نہیں تھا لیکن پاکستان نے امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ لیا۔ دہشتگردی کیخلاف اس جنگ میں پاکستان نے75000جانوں کی قربانیاں دیں جبکہ اسے 123ارب ڈالر کا معاشی نقصان اْٹھانا پڑا اس کے مقابلے میں امریکی امداد انتہائی معمولی صرف20ارب ڈالر تھی ہمارے قبائلی علاقے اس جنگ کی تباہ کاریوں کا نشانہ بن گئے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے۔ پاکستان نے امریکہ کو افغان جنگ کیلئے اپنے فضائی ، زمینی اور سمندری راستے فراہم کئے، عوام کی خواہشات کے منافی امریکہ کو بڈاپیر اورشمسی ائیر بیسز دیئے گئے۔ وزیراعظم نے بھی اپنے ٹویٹ میں کہہ دیا ہے کہ امریکہ پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کی بجائے افغانستان میں اپنی ناکامیوں پر غور کرے کہ کیوں ایک لاکھ 40ہزار نیٹو اہلکار، ڈھائی لاکھ افغان فوج کے باوجود امریکہ جنگ نہ جیت سکا۔ ایک ٹریلین ڈالر خرچ کرنے کے باوجود طالبان پہلے سے زیادہ توانا ہیں۔؟ پاکستان کی فوج نے ضرب عضب کی صورت میں دنوں میں اپنے جوہر دکھائے اورآج الحمدللہ پاکستان دہشت گردی سے پاک ہے امریکہ اپنی ناکامیوں کا غصہ پاکستان پر مت اْتارے۔