سیاست میں ’’عدم برداشت‘‘
ہے تو یہ 1977ء کا واقعہ لیکن لگتا ہے جیسے کل کی بات ہے مارچ 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف پوری قوم سڑکوں پر نکلی ہوئی تھی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کی کال پر پہلی بار خیبر سے لے کر کراچی تک ’’شٹر ڈائون ‘‘ اور پہیہ جام‘‘ہوئی اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے قبل ازوقت انتخابات کر وا کر نہ صرف بڑی سیاسی غلطی کی بلکہ عام انتخابات میں دھاندلی کروا کر اپوزیشن کو ان کے خلاف ایسی تحریک چلانے کا موقع فراہم کر دیا جو ان کے اقتدار کے خاتمہ کا باعث بن گئی ۔ایسی تحریک کی مثال ماضی میں چلائی جانے والی تحاریک میں نہیں ملتی ۔ اس بے مثال تحریک کے نتیجے میں اپنے وقت کے مقبول ترین لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو نہ صرف وزارت عظمیٰ سے محروم کر دیا بلکہ ملک میں مارشل لاء کی طویل سیاہ رات چھا گئی ۔ بالآخر طالع آزمائوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو محض اس خوف سے انہیں تختہ دار پر لٹکا دیا کہ اگر وہ رہا ہو کر باہر آگئے تو وہ ان تمام لوگوں سے انتقام لیں گے جنہوں نے ان سے اقتدار چھینا ہے ذوالفقار علی بھٹو کو اس بات کا بھی اندازہ نہیں تھا کہ ان کی جانب سے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرنے سے ان کے تمام سیاسی مخالف کم از کم نکات پر اکھٹے ہو جائیں گے قومی اسمبلی کے سابق رکن نذر کیانی نے ذوالفقار علی بھٹو کو قبل ازوقت انتخابات نہ کرانے کا مشورہ دیا تھا اور کہا تھا کہ اگر انہوں نے قبل ازوقت انتخابات کر انے کی غلطی کی تو ان کی مخالف تمام سیاسی قوتیں اکھٹی ہو جائیں گی ۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی مقبولیت پر ناز تھا ۔ اس وقت نیب کا کوئی قانون تو تھا نہیں جس سے وہ اپنے مخالفین کو قابو کر سکیں لیکن انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین سے نمٹنے کے لئے وہی حربے استعمال کئے جو ماضی میں ’’فاشسٹ ‘‘ لیڈر اپنے مخالفین کی آواز دبانے کے لئے استعمال کرتے تھے اگر ذوالفقار علی بھٹو میں سیاسی مخالفین کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا ہوتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ ان جیسا مقبول ترین لیڈر سالہاسال تک حکومت نہ کرتا جب کبھی کوئی سیاست دان اپنے سیاسی مخالفین کو ’’ٹھکانے‘‘ لگانے کی راہ پر چل نکلتا ہے اس کو بھی جلد ٹھکانے لگا دیا جاتا ہے اسی طرح محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی حکومتیں ختم کرنے کے لئے سیاست دان ’’آلہ کار‘‘ نہ بنتے تو ملک میں کبھی مارشل لا ء نہ لگتے دراصل ’’میثاق جمہوریت ‘‘ ملک کے دو بڑے سیاست دانوں میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی اپنی غلطیوں کے اعتراف کی دستاویز ہے جسے وزیر اعظم عمران خان نے ’’مک مکا‘‘ کا معاہدہ قرار دے کر مسترد کر دیا ۔ اگر اس دستاویز پر سیاست دان اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کیا جاتا تو کوئی طالع آزما جمہوریت کی بساط لپیٹ دینے کی سوچ بھی نہ سکتا۔ قومی اسمبلی کو قائم ہوئے تین ماہ ہو گئے ہیں لیکن انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کے 30رکن پارلیمانی کمیٹی کے سوا کوئی کمیٹی نہیں بنائی جا سکی پارلیمانی کمیٹی کا ایک اجلاس منعقد ہوا ہے جس میں صرف کمیٹی کے چیئرمین کا انتخاب عمل میں لا یا گیا ہے اور اس کے ٹی او آر تیارکرنے کے لئے ذیلی کمیٹی کے دو اجلاس ہو چکے ہیں ۔ اپوزیشن نے 10نکاتی ٹی او آر ز کا مسودہ پیش کر دیا ہے لیکن ذیلی کمیٹی کے پہلے اجلاس میں ہی حکومت نے ایک آئینی نکتہ اٹھا دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کا قائم کردہ کمیشن ہی انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کر سکتا ہے اپوزیشن نے حکومتی نکتہ آفرینی کو انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات سے راہ فرار قرار دیا ۔ قومی اسمبلی کی مجالس قائمہ کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ حکومتی طرز عمل ہے وزیر اعظم عمران خان سمیت کم و بیش بیشتر حکومتی عہدیداروں نے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ وہ ’’میثاق جمہوریت‘‘ کو کسی صورت تسلیم نہیں کرتے حالانکہ کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں نے ’’میثاق جمہوریت‘‘ کی توثیق کی ہے کبھی حکومت کی جانب سے اپوزیشن کو یہ تجویز پیش کر دی جاتی ہے جب تک نواز شریف حکومت کا آڈٹ مکمل نہیں ہوجاتا اس وقت تک حکومتی پارٹی کا ہی چیئرمین ہو گا ، اس کے بعد قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کو چیئرمین بنایا جا سکتا ہے،دوسری طرف اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے بھی متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ جب تک حکومت ’’میثاق جمہورت ‘‘ کی روح پر عمل درآمد کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین نہیں بناتی وہ کسی مجلس قائمہ کی چیئرمین شپ قبول کریں گی اور نہ ہی کسی کمیٹی کا حصہ بنیں گی ۔
پارلیمانی کمیٹی کا قیام ہی اپوزیشن کی جزوی کامیابی ہے 30رکنی کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کے برابر ارکان ہیں ظاہر ہے اس کا نتیجہ بھی کچھ نہیں نکلے گا تاہم 25جولائی 2018ء کی رات کو اگر کچھ ہوا ہے تواسکی تفصیلات ضرور سامنے آئیں گی ۔اپوزیشن جماعتوں نے عام انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کے لئے قائم کردہ پارلیمانی کمیٹی کے لئے 10 نکاتی ٹی او آرز کا تحریری مسودہ ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں پیش کر دیا ہے جبکہ حکومت نے اپنے ٹی او آرز تیار نہیں کر سکی اور ٹی او آرز پیش کرنے کے لئے کچھ وقت مانگ لیا ہے ۔ اگلے بدھ کو دوبارہ ایک اور میٹنگ ہوگی جس میں حکومتی ارکان کی طرف سے ڈرافٹ پیش کیا جائے گا مجوزہ تحریری ٹی او آر ز میں کہا گیا ہے کہ آر ٹی ایس، آر ایم ایس سسٹم کیوں ناکام ہوا، اس کا پہلے تجربہ کیوں نہیں کیا گیا انتخابی کمیٹی الیکشن کمیشن، نادرا انتخابی عملے ،امیدوار وں اورانتخابی عمل کے دوران ذمہ داری ادا کرنے والے تمام اداروں کے حکام کو بلانے کی مجاز ہو گی ۔سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹس کو تحریری نتائج کیوں نہیں دیئے گئے ۔کیا عام انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں، امیدواروں اور کارکنان کو یکساں مواقع ملے،کتنے نتائج کا اعلان آدھی رات کے بعد کیا گیا اور وجوہات کیا تھیں ۔ٹی اور آرز میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا الیکشن ایکٹ 2017 اور متعلقہ قواعد پر حقیقی روح کے مطابق عمل گیا گیا اور دیگر ریاستی اداروں کی طرف سے کیا الیکشن کمیشن کو آئین کے مطابق آزادانہ کام کرنے کا موقع دیا گیا۔عام انتخابات کے حوالے سے کیوں ضابطہ اخلاق جاری کرنے کی ضرورت پیش آئی۔
وزیر اعظم عمران خان نے ایک وفاقی وزیر کے داخلے پر ’’ناراضی‘‘ کا اظہار کیا ہے تاہم انہوں نے چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی سے ٹیلی فون پر بات چیت بھی کی ہے جبکہ اس معاملہ کا مناسب حل تلاش کرنے کے لئے وزیر دفاع پرویز خٹک کو چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی کے پاس بھجوا دیا ہے ۔ دلچسپ امر یہ ایک طرف حکومت چیئرمین سینیٹ سے ’’صلح صفائی‘‘ کی بات کرتی ہے تو دوسری طرف انہیں دھمکیاں بھی دیتی ہے کہ اگر چیئرمین سینیٹ نے ’’سخت گیری‘‘ ترک نہ کی تو وزراء سینیٹ کا بائیکاٹ کر دیں گے۔ اگر تحریک انصاف نے ماضی کی حکومتوں کی غلطیوں سے سبق نہ حاصل کیا تو خسارے کا سودا کرے گی ۔