جناح رفیع فائونڈیشن، سی پیک کی راہوں پر
چھبیس نومبر قومی تاریخ کا ایک سیاہ تریں دن ہے۔ بد قسمتی سے یہ دن خاموشی سے گزر گیا۔انیس سو اڑتالیس میں اس روز ایک فضائی حادثے نے رفیع بٹ کی جان لے لی۔ نوائے وقت کے صفحہ اول پر تعزیتی شذرہ چھپاا ور ان کی وفات حسرت آیات پر گہرے تاسف کااظہار کیا گیا۔
برسوں بعد میںنے رفیع بٹ کی زندگی پر تحقیق کاا ٓغاز کیا۔ تحریک پاکستان میں سرگرم عمل ممتاز صحافیوں ۔ ممتاز احمد خان۔ میاں محمد شفیع ( م ش) عبداللہ ملک ۔ ملک تاج الدیں ، حکیم آفتاب قرشی اورخواجہ افتخار، ڈاکٹر منیر الدیں چغتائی سے ابتدائی معلومات لیں ۔یہ سب متفق تھے کہ رفیع بٹ قائد اعظم کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ مسلم لیگ کے لئے انہوںنے نقدفنڈ فراہم کیا، قائد اعظم کو موجودہ گارڈن ٹائون میں واقع اپنی سرجیکل آلات کی فیکٹری میںمدعو کیااور ایک پر تکلف ضیافت کا اہتما م کیا۔وہ برسوں تک قائد سے رابطے میں رہے۔ دونوں راہنمائوں کے مابین خط و کتابت جاری رہی۔ قائد کے حکم پر رفیع بٹ نے ایک انگریزی اخبار نکالا اور ایک نیوز ایجنسی قائم کی۔ پنجاب میں مسلم لیگ اور قائد اعظم کے پیغام کوعام کرنے میں ان کاکردار فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
میں نے اپنی تحقیق کی مدد سے رفیع بٹ پر تین کتابیں لکھیں جو میرے پاس گھر میں کتابوں کے انبار میں ضرور موجود ہوں گی۔ مل بھی جائیں تو انہیں پڑھنے سے قاصر ہوں کہ بینائی ساتھ چھوڑ چکی ہے ۔ میںنے کوشش کی کہ چھبیس نومبر کو رفیع بٹ کے ہونہار سپوت امتیا زرفیع بٹ سے فون پر بات چیت ہو جائے اور کوئی نئے نکات ذہن میں تازہ کر لئے جائیں،مگر وہاں سے آپریٹرکے ذریعے جواب ملا کہ صاحب میٹنگ میں ہیں ، فارغ ہوں گے تو فون کر لیں گے۔ ایسے فون کبھی نہیں آیا کرتے مگر رفیع بٹ صرف امتیاز کے والد نہیں تھے، وہ ایک قومی ا ثاثہ ہیں اور میں ان سے اس لئے صرف نظر نہیںکرسکتا کہ ان کے بیٹے امتیاز کو اب پبلسٹی کی کوئی حاجت نہیں رہی۔
رفیع بٹ کی یاد میں ہر سال تعزیتی ریفرنس منعقد ہوتے ہیں۔ ان میں قومی شخصیات اظہار رائے کرتی ہیں اور رفیع بٹ کو خراج تحسین پیش کرتی ہیں۔ اب تو کوئی ایک برس ہوا کہ لندن کی ایک کمپنی رفیع بٹ پر ایک ڈاکو منٹری بھی تیار کرنے میںمصروف ہے۔ شاید یہ مکمل ہو گئی ہو۔ اس طرح رفیع بٹ کی زندگی کا ایک ایک گوشہ نئی نسل کے سامنے پوری تابناکی کے ساتھ پیش کیا جاچکا ہے۔میں اس میں کوئی اضافہ کرنے کی پوزیشن میںنہیں ہوں ۔ میںنے ایک بنیادی فرض ادا کیا۔ ایک شاندار ماضی کے قابل فخرکردار کا سراغ لگایاا ور محققین کے لئے راستے کھول دیئے۔ مجھے یہ دکھ بھی نہیں کہ اب میں اس سفر کا راہی نہیں ہوں کیونکہ مجھے خوشی ہے کہ میں نے قومی تاریخ کے ایک گم شدہ اور فراموش کردہ کردار کو تلاش کیاا ورا س کی اصل اہمیت اجاگر کی۔مجھے یہ بھی خوشی ہے کہ رفیع بٹ کے بیٹے امتیاز نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلنے کا فیصلہ کیاا ور جناح رفیع فائونڈیشن کی بنیاد رکھ کر ایک علمی ادارے کو پھلنے پھولنے کا موقع عطا کیا۔ اس ادارے نے کئی قومی مباحثے کروائے۔ امتیازرفیع بٹ اپنی خداد داد صلاحیتوں کی بنا پر ملائیشیا کے اعزازی قونصل جنرل مقرر ہوئے اوراس حیثیت میں انہیں مہاتیر محمد سے قربت پیداکرنے کا موقع ملا۔، وہ انہیں ایک بار پاکستان بھی مدعو کر چکے ہیں۔ ملائیشیا کی اہمیت پاکستان کے لئے ا سلئے مسلمہ ہے کہ اسے مہاتیر محمد نے ایشین ٹائیگر کا مرتبہ عطا کیا اور یہ ملک آج پاکستان کے لئے رول ماڈل ہے ، ہمارے وزیر اعظم عمران خان ملائیشیا جا کرمہاتیر جیسے عظیم المرتبت، مدبر سیاستدان اور حکمران سے مل چکے ہیں اور ملکی مسائل کے حل کے لئے ان سے راہنمائی طلب کی ہے۔ اس ضمن میں امتیاز رفیع بٹ کیا کردارا دا کر سکتے ہیں،۔یہ تو ان سے ملنے اور گفتگو کرنے کے بعد ہی کچھ کہا جاسکتا ہے مگر ان کاکردار بہر حال کلیدی اہمیت کا حامل ہو گا، پاکستان کو ان کی خدمات سے ضرور مستفید ہونا چاہئے۔
رفیع بٹ اپنے زمانے کے ممتا زصنعتکار تھے۔ قبل از تقسیم مسلمان صنعتکار انگلی پر گنے جا سکتے تھے اور ان پر قوم ہمیشہ ناز کرتی رہے گی۔رفیع بٹ کی برآمدات ملکوں ملکوں پھیلی ہوئی تھیں۔ اسی کمائی سے انہوںنے تحریک پاکستان کی اعانت کی۔۔ اخبار میں سرمایہ لگایااور اور ایک نیوز ایجنسی بھی قائم کی۔ نیوزایجنسی اخبار نویسوں کی بیٹھک کا، کام بھی دیتی تھی۔ ممتا ز صحافی سہہ پہر کو یہاں جمع ہوتے، چائے کافی پیتے اور پھر اپنی سرگرمیوں کے لئے شہر میں نکل جاتے۔سمجھ لیجیئے کہ یہ جگہ پریس کلب کے طور پر کام دے رہی تھی اور اس کے میزبان رفیع بٹ تھے۔
جناح رفیع فائونڈیشن کے حوالے سے میں اتنا جانتا ہوں کہ اس نے قومی اہمیت کے مسائل پر مباحثے منعقد کروائے اور پچھلے برسوں میں اس نے سی پیک پر ساری توجہ مبذول کر رکھی ہے۔ یہ منصوبہ ویسے ہی پاکستان کے لئے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے مگر امتیا ز رفیع بٹ نے اپنے عظیم والد کی راہوں پر چلتے ہوئے بدلتے ہوئے حالات کے مد نظر ایسی منصوبہ بندی کی ہے کہ وہ وقت کے دھارے سے آگے نکل گئے ہیں ۔انہیں بخوبی احساس ہے کہ گوادر کی حیثیت پاکستان کے لئے سنگا پور ، ہانگ کانگ اور دوبئی جیسی ہو گی۔ اس لئے انہوں نے وقت سے بہت پہلے اس علاقے کی تعمیر و ترقی کے لے بہت بڑا منصوبہ پیش کیا ۔ جس کی توقع سے زیادہ پذیرائی ہوئی۔ اگر یہ کمرشل منصوبہ نہ ہوتا تو میں ا سکی تفصیل میں بھی جاتا مگر اتنا ضرو کہوں گا کہ ایک پسماندہ علاقے میں سرمایہ کاری کرنا جان جوکھوں کا کام ہے اور امتیاز رفیع بٹ نے یہ رسک لینے میں کسی ہچکچاہٹ کا اظہار نہیں کیا۔ اس وقت وزیر اعظم عمران خان کی حکومت ملک میں پچاس لاکھ گھروں کی منصوبہ بندی کر ر ہی ہے اور اس کے لئے بیرونی سرمایہ کاروں کو دعوت دینے میںمصروف ہے۔ ان گھروں کی تعمیر سے ملک میں ایک کروڑ روزگار کے مواقع بھی میسر آ ئیں گے جن کا وزیر اعظم نے وعدہ کیا ہے۔امتیا زرفیع بٹ داد کے مستحق ہیں کہ ان کے ادارے جناح رفیع فائونڈیشن نے گوادر پر توجہ مبذول کی ہے۔ آج گوادر ایک پس ماندہ اور بد قسمت بستی ہے۔ پچاس ہزار کے قریب مقامی افراد خانہ بدوشوں کی سی زندگی بسر کرتے ہیں لیکن اسی گوادر میں جدید بستیاں آباد ہو ں گی، تو یہ نہ ہو کہ یہاں کے پچاس ہزار قدیم باشندے معدوم ہو کرہ جائیں ۔ ہر نئی رہائشی اسکیم کو پابند کیا جائے کہ وہ ایک بلاک مقامی افراد کے لئے مختص کرے اور انہیں پلاٹ مفت مہیا کرے اور حکومت ان لوگوں کو انتہائی آسان اقساط پر قرضہ دے جس سے یہ لوگ چھوٹے چھوٹے گھر بنا سکیں تاکہ گوادر قدیم اور جدید کاا ایک حسین امتزاج بن سکے۔
گوادر کولا تعداد خطرات لاحق ہیں۔ بھارت اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہوا ہے۔افغانستان اور کسی حد تک ایران کے لئے بھی گوادر کی ترقی ہضم نہیں ہو پارہی۔ گوادر کے سامنے اومان اگرچہ پاکستان کا قریبی ہمسایہ اور دوست ہے مگر وہاں بھی دکم کی بندرگاہ کو چین ہی ترقی دینے میں مصروف ہے مگر جو اہمیت گوادر کی ہے،وہ کسی اور بندرگاہ کی نہیں ہو سکتی ،ا سلئے کہ خشکی کے راستے یہ قریب ترین بندرگاہ ہے جو چین کو دنیا کے تین بڑے بر اعظموں سے تجارتی رشتوں میں جوڑ سکتی ہے۔میری تجویز ہے کہ جہاں جناح رفیع فائونڈیشن گوادر کے ثمرات سے بہرہ مند ہونا چاہتی ہے، وہاں اسے گوادر کی سیکورٹی کے معاملات پر تحقیقی کام بھی کرنا چاہئے اور اندرونی اوربیرونی سرمایہ کاروں کا یہ خوف دور کرنا چاہئے کہ گوادر کوئی پر خطر علاقہ ہے یا پاکستان اس کی حفاظت سے قاصر ہے۔ جب پاکستان بنا تھا تو ہندو ڈراتا تھا کہ یہ نیا ملک چند روز بھی نہیں چل پائے گاا ور آخر کار بھارت کی جھولی میں آن گرے گا مگر قائد اعظم کی فکر سے سرشار پاکستانیوں نے اس ملک کو ایٹمی طاقت سے مسلح کیاا ور اسے ناقابل تسخیر بنا دیا۔ اب اس ملک کو ایک چھوٹا سا خطرہ دہشت گردی کی صورت میں درپیش ہے۔ اس کا ازالہ تو کوئی مشکل کام ہے نہیں ،ہماری مسلح افواج نے اس کی کمر توڑ دی ہے اور بچے کھچے عناصر کا تعاقب جاری ہے۔ بہر حال جناح رفیع فائونڈیشن اور گوادر سے فائدہ ا ٹھانے والی دیگر کمپنیوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایک پر امن پاکستان کاا میج دنیا کے سامنے پیش کر یں۔ امتیاز رفیع بٹ ایک ٹائیکون کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ بے حد مصروف ہو چکا ہے مگر میں کوشش کروں گا کہ اس سے وقت مل سکے ا ور اسے ملک کے وسیع تر مفاد کے ایجنڈے پر کام کے لئے قائل کر سکوں۔