رویوں میں عدم برداشت
ہم کیا ہیں ؟ کون ہیں ؟ یہ ہم سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا ۔ پر کوئی جاننا ہی تو نہیں چاہتا کہ وہ کون ہے ؟ اس جاننے کے عمل میں خود کے سامنے کھڑا ہونا پڑتا ہے پر اتنی ہمت ہم میں کہاں سے آئے ؟ آج کے اس معاشرے کے لوگوں میں عدم برداشت اور بے چینی حد سے تجاوز کر چکی ہے۔ ہر فرد اپنی بات منوانے میں مصروف ہے ، منفی رویے شدت اختیار کر رہے ہیں ۔ برداشت کا عنصر بہت کم ہے ۔ ہر کوئی ایک دوسرے پر الزام لگانے کی دوڑ میں مصروف ہے ۔ کوئی اپنی غلطی تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں ہے۔ ’’ تم ہی غلط ہوںــــــــ‘‘ یہی جملہ سننے کو ملتا ہے ۔ اسلام کا اہم پہلو ہے برداشت کرنا ، بعض اوقات کسی کی کوئی بات ، کوئی عمل آپ کو نا گوار گزر سکتا ہے پر اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ فوری طیش میں آجائیں آپ کو ایسے معاملے کو سدھانے کے لیے مثبت حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی تاکہ معاشرے میں امن قائم رہ سکے ۔ بے شک انسان خطا کا پتلا ہے اور برداشت کرنا مشکل ہے پر نا ممکن نہیں ۔ حضرت دائود ؑ کا قول ہے ـ ’’ کمزور وہ ہے جو اپنی خواہش پر قابو نا پا سکے ، او ر طاقت ور وہ ہے جس کے پاس قوتــ برداشت ہیــ‘‘۔(خدیجہ اسماعیل لاہور کالج فارویمن یونیورسٹی)