درویش رفیق غوری کا استدلال
اک روز شاعر عباس تابش نے مجھے بتایا:
تلاش رزق میں بھٹکتے ہوئے پرندوں کو
میں جیب خرچ سے دانہ کھلایا کرتا تھا
بچپن کا دوسرا نام ایثار ،محبت ، قربانی اور معصومیت ہے ۔ مزاح نگار شفیق الرحمان نے یہی سچائی یوں لکھی :’بچے اچھے ہوتے ہیں لیکن پھر بڑے ہوجاتے ہیں ‘۔ یوں وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بڑے ہوتے ہی ان کے بچپن کا سارا ایثار ختم ہو جاتا ہے ۔ معصومیت کی بجائے لالچ، خود غرضی اور مکاری عود کر آتی ہے ۔ اِدھر ادھر سے سب کچھ سمیٹ لینے کو جی چاہتا ہے ۔ صرف اپنی جھولی اور صرف اپنا گھر بھرنے کی خواہش باقی رہ جاتی ہے ۔ پھر کیا ہوتا ہے ؟ آگے کا منظر نامہ امجد اسلام امجد کی زبانی سنئیے:؎
بہتوں کی ضرورت جو یاں پوری نہیں ہوتی
رکھا ہے کسی نے تو ضرورت سے زیادہ
لاہور‘ لاہور ہے والی بات بھی اب سچی نہیں رہی ۔ سچی بات یہ ہے کہ لاہور اب عجیب ہو گیا ہے ۔ کوفے سے قریب ہو گیا ہے ۔ لاہور‘ لاہور اس زمانہ میں ہوا کرتا تھا جب مال روڈ ٹھنڈی سڑک ہوا کرتی تھی ۔ بڑے بڑے لوگ اس سڑک پر سیر کرتے دکھائی دیتے تھے ۔ چائینیز لنچ ہوم سے پہلے پنجاب یونیورسٹی کے سامنے ٹولٹن مارکیٹ میں کیپری اور بلیو ڈریگن ، پھر کافی ہائوس ، پاک ٹی ہائوس ،شیزان ، لارڈز، گارڈینیا،آگے بڑھتے جائیے اور انٹر کانٹینینٹل تک پہنچ جائیے کہ ان دنوں پرل کانٹینینٹل کا یہی نام ہوا کرتا تھا۔ وہ باہم مل بیٹھنے کا زمانہ تھا۔ لوگوں کو بہت فرصت میسر تھی ۔ آج کی طرح افرا تفری کا دور نہیں تھا۔ لوگ گھنٹوں بیٹھے گپ شپ لگاتے رہتے۔ لاہور بے پناہ پھیلا نہیں تھااور ابھی پیدل سواروں کی دسترس میں تھا۔ اک دوجے کے دکھ درد میں شریک ہونے کا چلن عام تھا۔ ؎
تھے کتنے اچھے لوگ کہ جن کو اپنے غم سے فرصت تھی
سب پوچھیں تھیں احوال جو کوئی درد کا مارا گزرے تھا
آج کون یقین کرے گا کہ ان دنوں مال روڈ کے بڑے ہوٹلوں میں چائے ایک روپیہ ’’پر ہیڈ‘‘میسر تھی ۔ پھر یہ چائے اسی قیمت میں دوبارہ بھی منگوائی جا سکتی تھی ۔’ شیزان‘ میں داخل ہوتے ہی ایک گول میز سے واسطہ پڑتا۔ کیا کیا چاند چہرے اس میز کے گرد بیٹھے دکھائی دیتے تھے ۔ یہ خادم حسین رضوی کے زمانہ سے پہلے کا قصہ کہانی ہے ۔ ابھی گالیاں اور سیاسی اور مذہبی مکالمہ میں داخل نہیں ہوئی تھیں۔اس زمانہ میں گہرے گندمی رنگ ،باریش چہرے ، سر کے بال بکھرے ہوئے ، ملگجے رنگ کے کپڑے پہنے ، گلے میں پڑھنے والی عینک لٹکائے ایک صاحب اکثر شیزان ریسٹورنٹ میں نظر آیا کرتے۔ یہ جناب رفیق غوری تھے ۔ کہیں کرایے کے مکان سے چلتے پھرتے شیزان مال تک پہنچ جاتے ۔ خالی جیب آتے اور خالی جیب چلے جاتے ۔ شیزان میں چائے اور کھانا ملتا رہتا۔ اب مجھے یاد نہیں آرہا کہ سگریٹ پیتے تھے یا نہیں۔ پیتے بھی ہوں تو ایسے لوگوں کے سگریٹوں کا برانڈ کچھ ایساویسا ہی ہوتا ہے ۔ ان سے برانڈ کا پوچھا جائے تو سوچتے ہوئے بتاتے ہیں۔ ’’کیپسٹن، ووڈ بائن یا پھر جو بھی مل جائے پی لیتا ہوں‘‘۔ یہ انسانوں کی اس نایاب نسل سے تعلق رکھتے تھے جن کی سادگی ، معصومیت ، ایثار اور صبر عمربڑھنے کے ساتھ ختم نہیں ہوتا۔ یہ بڑے ضرور ہو جاتے ہیں لیکن اپنا ایثار ، صبر اور معصومیت کہیں بچپن کی گلیوں میں چھوڑ نہیں آتے ۔ یہ اپنے ملک سے محبت کرنیوالے پرجوش قلمکارتھے آخری دنوں میں ’’نوائے وقت‘‘ میں لکھ رہے تھے کہ اللہ کو پیارے ہو گئے ۔ رفیق غوری مجھے اسلئے یاد آگئے کہ یہ درویش منش آدمی بڑھاپے میں بھی بچپن گزار رہے تھے ۔ انگریزی کا ایک لفظ ہے "Moron"اس کا مطلب ہے جسمانی طور پر بالغ لیکن ذہنی طور پر نابالغ۔ خدا نخواستہ میرا یہ مطلب ہرگز نہیں۔رفیق غوری بچپن کی معصومیت، صبر ، توکل ، ایثار عمر بھر ساتھ لئے جیتے رہے ۔ ان کا ایک واقعہ پچھلے دنوں جناب رئوف طاہر کی زبانی پتہ چلا۔میں اسے سن کر دیر تک سوچتا رہ گیا ۔ محمد علی درانی نے وزیر اطلاعات و نشریات کا حلف اٹھایا ۔ چند دنوں بعد اسلام آباد سے لاہور پہنچے تو رفیق غوری کو بلا لیا۔ ان سے ان کی پرانی یاد اللہ تھی ۔ پوچھنے لگے ۔ کیا کرتے ہو؟ گزر بسر کیسی ہو رہی ہے ؟؟کچھ سوالات کے جوابات سے پوچھنے والا پہلے سے ہی آگاہ ہوتا ہے ۔ پھر بھی اللہ جانے کیوں پوچھے چلا جاتا ہے ۔ محمد علی درانی کا بھی یہی ماجراتھا۔اُدھر رفیق غوری جیسے غیور بندے کا جواب یہی ہونا چاہئے تھا ، سو یہی ہوا۔’ ’اللہ کا شکر ہے وہ جس حال میں بھی رکھے ‘‘۔ اس تمہیدی مکالمہ کے بعد محمد علی درانی نے انہیں بلوانے کا مدعا بیان کیا۔کہنے لگے میں آپکوریڈیو پاکستان میں ریسرچ آفیسر مقرر کر رہا ہوں۔آپ تحریک پاکستان پر ورک کریں ۔اس پر رفیق غوری نے شکریہ ادا کیااور رخصت چاہی۔ چند روز بعد انہیں تقرری کا پروانہ مل گیا ۔ اسکے مطابق انہیں ریڈیو پاکستان میں 65000/-روپے ماہوارمشاہرہ پرریسرچ افسر مقرر کیا گیا تھا ۔یہ تقرری نامہ وصول کرنے کے بعد رفیق غوری نے دوبارہ محمد علی درانی سے رابطہ کیا ۔ وہ انہیں بتانے لگے ۔ مجھے اتنی تنخواہ نہیں چاہئے ۔ میں اتنی تنخواہ کا بھلا کیا کرونگا؟ مجھے 25000/- روپے ماہوار تنخواہ کافی ہوگی۔پھر وہ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہنے لگے۔ وزارتیں آنی جانی شے ہیں ۔ آپ آج وزیر ہیں کل نہیں رہیں گے۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ آپکے جانے کے بعد بھی مجھے اتنی تنخواہ والی نوکری سے کوئی ہٹائے گا بھی نہیں۔