چار سو سے میٹر چار ۔سدھو چمتکار
قیام پاکستان کے بعد سکھ رہنما ماسٹرتارا سنگھ غیر سرکاری غیر اعلانیہ طور پر مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سمادھی پر پائے گئے ۔ بزرگ مسلم لیگی اور تحریک پاکستان کے کارکن کرنل سلیم ملک بتاتے ہیں کہ ماسٹر تارا سنگھ تقسیم ہند کے حوالے سے اپنے فیصلے پر نہایت نادم اور مضطرب تھے ۔ تارا سنگھ کا کہنا تھا کہ میں سوچتا تھا کہ لاہور جائوں گا تو ہر چوراہے ہر اہم مقام پر جناح صاحب کے پتلے اور مورتیاں نظر آئیں گی ۔ ہم نے جناح صاحب کی دعوت قبول نہ کرکے تاریخی غلطی کی جس کا ازالہ شاید سکھ قوم نہ کر سکے گی ۔دوسری جانب پہلے بھارتی وزیر اعظم پنڈت نہر ونے بڑے تکبر بھرے لہجے میں دعوی کیا تھا کہ پاکستان چھ ماہ کے اندر اندر ہی بے بس و لاچا رہو کر ہمارے قدموں میں آن گرے گا ۔ اسی سوچ کے تحت پاکستان پر بارہا جنگیں مسلط کی گئیںاور 1971میں مکتی باہنی کے ذریعے پاکستان کو دو لخت کرکے بھی چین نہ آیا ۔ہندو ذہنیت آج تک ہمیں ختم کرنے کے خبط میں مبتلا ہے جبکہ چین کی جانب سے سی پیک اور ون روڈ ون بیلٹ کے عالمگیر منصوبے کے اعلان کے بعد امریکہ بھی سیخ پا ہو کر بھارت کی پشت پر آبیٹھا جس سے خطے کی صورتحال مزید سنگین ہونے لگی ۔
اسی تناظر میں 2018پاکستان میں عام انتخابات میں عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کامیاب ہوئی ۔وزیر اعظم کی حلف برداری کی تقریب میں ان کا کرکٹر دوست نوجوت سنگھ سدھو محبت اور امن کے ترانے گنگناتا نظر آیا ۔دوران تقریب جنرل باجوہ سے کرتار پور راہ داری کھولنے پر بات ہوئی ۔ جنرل صاحب کے اثباتی جواب سے سدھو فرحت جذبات سے ان سے لپٹ گیا ۔ پھر حکومت کے سو دن پورے ہونے سے ایک دن قبل وزیر اعظم عمران خان نے بارہ کروڑ سکھوں کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہوئے اس راہ داری کا سنگ بنیاد رکھا ۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ بھارت کی جانب سے آنے والے سکھ یاتری پاسپورٹ اور ویزے کی علت کے بغیر ہی اپنے گروہ تک پہنچ سکیں گے ۔مشرقی پنجاب کی نمائندگی وہاں کی وزیر خوراک ہر سمرت کور اور وزیر تعمیرات ہر دیپ سنگھ اور عمران کے یار بااعتبار سدھو جی نے کی ۔وزیر اعظم پاکستان نے اس موقع پر کہا کہ جب تک ہم ماضی کی زنجیریں نہیں توڑیں گے آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ماضی سیکھنے کے لئے ہوتا ہے رہنے کے لئے نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر فرانس اور جرمنی مل کر آگے بڑھ سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں ۔ پاکستان کے تمام ادارے ایک صفحے پر ہیں اور بھارت کے ساتھ مہذب تعلقات چاہتے ہیں ۔ تقریب میں موجود چہروں پر وہ خوشی دیکھ رہا ہوں جو مسلمانوں کو مکہ مدینہ جانے سے ملتی ہے ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارے درمیان ایک مسئلہ کشمیر ہے کیا ہم وہ حل نہیں کر سکتے ؟ صرف ارادے کی ضرورت ہے ۔ ہم دونوں جوہری ملک ہیں ۔ آپس میں جنگ کا سوچنا پاگل پن ہے ۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ گورونانک نے امن و محبت کا پیغام دیا ہے ۔ اسلام بھی بھائی چارہ اور رواداری کا درس دیتا ہے ۔ کرتار پور راہ داری کھولنے کا پوری دنیا نے خیر مقدم کیا ہے ۔ بھارتی پنجاب کی وزیر ہر سمرت کور نے کہا کہ 70سال ہم قریب رہ کر بھی دور رہے ۔ جس دن بھارتی کابینہ نے راہ داری کی منظوری دی میری دنیا ہی بدل گئی ۔ جیسے گورونانک نے سب کو جوڑا امید ہے کہ راہ داری بھی سب کو جوڑ دے گی ۔ تقریب کے روح راوں سدھو نے بڑے جذباتی انداز میں کہا کہ تین مہینوں میں ایک جپھی رنگ لے آئی ۔ امن کے لئے دونوں ملکوں کو آگے بڑھنا ہوگا ۔ تقریب کا ماحول نہایت جذباتی اور دوستانہ تھا ۔ دونوں جانب سے شرکاء مستقبل کے حوالے سے پر امید اور بقائے باہمی کے جذبہ سے سرشار تھے ۔ بعدازاں شام کو حضوری باغ گریٹر اقبال پارک میں پرتکلف عشائیہ ہوا ۔ دہلی سے آئے ہوئے صحافی بڑی مثبت رائے دیتے رہے کہ یہاں کہیں دہشت گردی اور تلخی کے آثار دکھائی نہیں دیتے ۔مگر اس کے برعکس بھارتی میڈیا بری طرح زہر اگل رہا تھا اور اس مذہبی تقریب کو سیاسی رنگ دینے میں مصروف تھا ۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سورا ج کے بیان نے امن پسند قوتوں کو مضطرب کر دیا ۔ انہوں نے کہا کہ کرتار پورراہ داری کھولنے کا مقصد یہ نہیں کہ پاکستان سے دو طرفہ مذاکرات شروع ہو جائیں گے ۔ انہوں نے سارک کانفرنس کی دعوت مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی جانب سے دہشت گردی ختم کرنے تک کوئی بات چیت نہیں ہو سکتی ۔
قارئین کرام ۔ اس راہ داری سے چار سو میل کا فاصلہ سمٹ کر چار میل پر آگیا ہے ۔ ہمارے مسلم لیگی بزر گ دوست بدرالزماں ورک کا کہنا ہے کہ یہ سدھو جی کا چمتکار ہے ۔کرتارپور راہ داری کا تاریخ ساز فیصلہ بھارت میں موجود بائیس لاکھ مسلم اور بارہ لاکھ سکھوں میں اگر یک جہتی کی بنیاد بن گیا تو 2019میں ہونے والے بھارتی انتخابات میں مذہبی انتہا پسند جنتا پارٹی کا سورج غروب ہونے کا باعث ہو سکتا ہے ۔اگر کانگریس کامیاب ہوجاتی ہے تو اس کا سہرہ جناب سدھو کے سر ہوگا ۔پھر کیا ہوگا ؟ یہی خوف بھارتی حکمرانوں کے چہروں اور زبا نوں سے جھلک رہا ہے ۔