• news

انصاف کے لئے کھڑے ہونے والے کو عہدے سے ہٹادیا جاتا ہے: چیف جسٹس

اسلام آباد (نوائے وقت نیوز+ایجنسیاں) چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بنی گالہ میں غیرقانونی تعمیرات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ ریگولرائزیشن اس لیے تاخیر کا شکار ہے کہ اس میں وزیراعظم کا معاملہ بھی ہے۔ منگل کو سپریم کورٹ میں بنی گالہ میں غیرقانونی تعمیرات سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔د وران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بابر اعوان کہاں ہیں، میرا خیال ہے کہ انہوں نے التوا کی درخواست بھجوائی ہے۔ ایڈوکیٹ آن ریکارڈ نے چیف جسٹس کو بتایا کہ بابر اعوان چھٹی پر ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ریگولرائزیشن عمران خان کی نشاندہی پر شروع کی گئی۔ چیئرمین سی ڈی اے نے عدالت کو بتایا کہ 100 سے زیادہ ریگولرائزیشن کی درخواستیں آچکی ہیں اور سی ڈی اے نے سپلیمنٹری رپورٹ فائل کی ہے۔ انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ اس رپورٹ میں ریگولرائزیشن سے متعلق سفارشات ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ لیک ویو پارک میں تفریحی کمپنیوں کے معاملے پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے معائنہ کرنا تھا، معلوم ہوا ہے کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عہدہ چھوڑ چکے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل سیدھی اور سچی بات کرتے تھے۔ جو انصاف کے لئے کھڑا ہو، حکومت اسے عہدے سے ہٹا دیتی ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا صرف وزیراعظم کی وجہ سے ریگولرکرنے میں تاخیر ہو رہی ہے، تفصیلات سے آگاہ کیا جائے، کس کس نے ریگولر کرنے کے لئے اپلائی کیا ہے اور ریگولرائزیشن فیس جمع کرائی ہے؟۔ چیئرمین سی ڈی اے نے جواب دیا کہ مجموعی طور پر سو سے زائد درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ریگولرائزیشن اس لیے تاخیر کا شکار ہے کہ اس میں وزیراعظم کا معاملہ بھی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ریگولرائزیشن کے بغیر ہاؤسنگ سوسائٹی کو اجازت نہیں دیں گے، وہاں بجلی اور گیس لگانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ میرے موکل کی وہاں 100 کنال اراضی ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 100 کنال زمین کا مطلب یہ نہیں کہ ہاؤسنگ سوسائٹی بنائیں، آپ کو ماحولیات اور دیگر اداروں سے اجازت لینا ہوگی۔ چیف جسٹس نے کہا اس معاملے پر اب ایسا کچھ رہ نہیں گیا، معاملہ نمٹا سکتے ہیں، سی ڈی اے بتائے زون 4 کی کیا صورتحال ہے؟۔ چیئرمین سی ڈی اے نے عدالت کو بتایا کہ زون 4 کو چار حصوں میں تقسیم کیا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دیکھیں ہاؤسنگ سوسائٹی کس حصے میں آتی ہے؟۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ مسئلہ بڑی حد تک حل ہو گیا ہے۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مختلف طریقوں سے ریگولرائزیشن کے مسائل حل ہوسکتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بنی گالہ کا بہت رومانس تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ معاملے پر توجہ دلانے والے بابر اعوان نے اب التوا کی درخواست کردی ہے۔ نجی زمین کے مالک کی جانب سے عدالت میں پیش ہونے والے وکیل کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے ریگولرائزیشن کے لیے کمیشن بنانے کی تجویز دی ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وزیر اعظم جو پالیسی بنائے، اسے ماسٹر پلان سے مشروط کر دیں۔ ڈی جی ماحولیات نے بتایا کہ بوٹینکل گارڈن کی کچھ زمین حاصل کی جا چکی ہے، کچھ باقی ہے، 7 میں سے 2 افراد سے زمین واگزار کرالی ہے۔ چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ پولیس کو ساتھ لے جا کر زمین واگزار کروائیں، بوٹینیکل گارڈن کی ساری زمین آج ہی واگزار کرائیں، اتنی بڑی زمینوں پر قبضہ مافیا بدمعاشی سے بیٹھا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ریگولرائزیشن سی ڈی اے کا کام ہے وہی اسے انجام دے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے بوٹینکل گارڈن کی اراضی ایک ہفتے میں واگزار کرانے کا حکم دے دیا، جس کے بعد بنی گالہ تعمیرات سے متعلق کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت ایک ہفتے کیلئے ملتوی کردی گئی۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے دادو میں نئی گج ڈیم کی تعمیر میں تاخیر سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ اس دوران ڈپٹی اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ وفاق اور وزارت آبی وسائل کی طرف سے جواب جمع کرادیا ہے جبکہ حکومت سندھ کا جواب آگیا ہے اور وہ ڈیم کا متبادل بنانا چاہ رہے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ ڈیم ہر صورت بننے ہیں، ساتھ ہی جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 16 ارب روپے جاری کیے جاچکے ہیں، اب کیسے کہہ رہے ہیں کہ کچھ اور بنانا ہے۔ اس پر عدالت میں موجود واپڈا کے نمائندے نے بتایا کہ کنٹریکٹر کی بینک گارنٹی جعلی ہے، 51 فیصد کام ہوچکا ہے، باقی کام رکا ہوا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت سندھ، متعلقہ وزارت اور وفاقی حکومت کو بلا لیتے ہیں اور پوچھ لیتے ہیں کہ یہ کیسے ہوا؟۔ عدالت کے استفسار پر نمائندہ واپڈا نے بتایا کہ بینک آف پنجاب نے بتایا کہ بینک گارنٹی ٹھیک ہے، بعد میں پتہ چلا کہ یہ جعلی گارنٹی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کریں 16 ارب روپے خرچ ہونے کے بعد ڈیم کا کام روک دیں؟ اس پر نمائندہ واپڈا نے بتایا کہ یہ ڈیم 4 برسوں میں مکمل ہونا تھا، صرف 20 فیصد رقم جاری ہوئی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں اس کی تفصیلات دیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ڈیم کے لیے جاری 16 ارب روپے عوام کا پیسہ ہے، کھانچے مارنے کے لیے منصوبے شروع کیے جاتے ہیں، کمیشن لے کر منصوبے ادھورے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ اس پر واپڈا کے نمائندے نے بتایا کہ سندھ حکومت کہتی ہے کہ منچھر جھیل کو زیادہ پانی دیں جبکہ زیادہ پانی دینے سے قابل کاشت رقبہ کم ہوجائے گا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 16 ارب روپے کم نہیں ہوتے، اتنی رقم خرچ ہونے کے بعد اب یہ خیال آرہا ہے، آپ پہلے سے ساری چیزیں طے کیوں نہیں کرتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈیم بننا چاہیے 16 ارب روپے ضائع تو نہیں کرسکتے، بیٹھ کر دیکھیں کیا کرنا ہے، سندھ حکومت کی طرف سے تو کوئی آتا ہی نہیں، اس معاملے پر سیکرٹری پلاننگ تجاویز دیں۔سپریم کورٹ نے پی پی ایل کرپشن کیس میں نیب سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت دو ماہ کیلئے ملتوی کردی۔ سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی کیس کے آغاز میں پراسیکیوٹر جنرل نیب اصغر حیدر نے عدالت کو بتا یا کہ یمن اور عراق کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی تحقیقات کافی آگے جا چکی ہیں۔ تاہم عدالت مزید وقت دے تو پیش رفت رپورٹ دیں گے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا نیب کی آج جمع کروائی گئی رپورٹ نعیم بخاری صاحب کو ملی، وکیل نعیم بخاری نے کہا انکو رپورٹس نہیں ملیں۔ جس پر عدالت نے نیب رپورٹ وکیل نعیم بخاری کو فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی مزید سماعت دوماہ کیلئے ملتوی کردی۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ افسوس ہوتا ہے گیس کا بہت بڑا ذخیرہ ہم نے چولہوں میں جھونک دیا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے ایس ایس جی سی کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت سپریم کورٹ نے ایس ایس جی سی کو ایل پی جی اور ایل این جی بنانے والوں کو گیس جاری کرنے کا حکم دیا۔

اسلام آباد (نوائے وقت نیوز) سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاکپتن دربار اراضی سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے تحقیقات کیلئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایف آئی اے سے تحقیقات کروا لیتے ہیں یا جے آئی ٹی بنا دیتے ہیں، جو اس معاملے کے حقائق معلوم کرلے گی۔ جبکہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا مجھے تحقیقات پر کوئی اعتراض نہیں لیکن میرا جے آئی ٹی کا تجربہ اچھا نہیں۔ منگل کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے۔ نواز شریف پر 1985 میں بطور وزیراعلیٰ محکمہ اوقاف کی زمین واپسی کا نوٹیفکیشن واپس لینے کا الزام ہے۔ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ کہاں ہیں نوازشریف؟ جس پر سابق وزیراعظم نواز شریف کمرہ عدالت میں روسٹرم پر آئے۔ چیف جسٹس نے نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ وزیراعظم پاکستان تھے، آپ کے بہت سے فیصلے ہمارے سامنے آئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عطاء الحق قاسمی کے معاملے میں بھی یہی ہوا۔ فواد حسن فواد نے بتایا کہ وزیراعظم سے منظوری لی، کیا آپ کے سیکرٹری نے زمین ڈی نوٹیفائی کی؟ اس پر نواز شریف نے عدالت کو بتایا کہ جس بات پر آپ کو حیرت ہے مجھے بھی حیرت ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے پاکپتن دربار کی اراضی پر دکانوں کی تعمیر کے معاملے پر نواز شریف کے تحریری جواب پر ان کا موقف طلب کیا۔ سابق وزیراعظم نے جواب دیا کہ یہ 32 سال پرانا واقعہ ہے اور میرے علم میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں آپ کو کیس کا پس منظر بتاتا ہوں، محکمہ اوقاف کی زمین کے دعوے داروں نے کیس کیا اور ہائیکورٹ نے بھی قرار دیا کہ زمین محکمہ اوقاف کی ہے۔ چیف جسٹس نے نواز شریف کو مخاطب کرکے ریمارکس دیئے کہ مقامی عدالت نے فیصلہ کر دیا تو آپ کے پاس بطور وزیراعلیٰ ڈی نوٹیفکیشن کا اختیار نہیں تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو نوٹیفکیشن نہیں سمری منظور کرنی تھی، تاثر یہی ملے گا کہ آپ کی منظوری سے نوٹیفکیشن جاری ہوا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے پاس سمری آئی ہوگی، پرنسپل سیکرٹری وزیراعلیٰ پنجاب جاوید بخاری نے لکھا وزیراعلیٰ کو دکھا کر دستخط کیے گئے۔ جس پر نواز شریف نے جواب دیا کہ ریکارڈ پر ایسا کوئی آرڈر نہیں جو میں نے جاری کیا ہو۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا محکمہ اوقاف کیساتھ فراڈ ہوا ہے؟ نواز شریف نے جواب دیا کہ نوٹیفکیشن کا نمبر غلط ہونے کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جاوید بخاری حیات ہیں؟ جس پر نواز شریف نے جواب دیا کہ جی جاوید بخاری حیات ہیں۔ نواز شریف نے موقف اختیار کیا کہ میرا خیال ہے کہ نچلے لیول پر کوئی گڑبڑ ہوئی ہے، شاید سیکرٹری اوقاف نے اختیارات کے تحت 1971کے نوٹیفکیشن کو ڈی نوٹیفائی کیا۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیکرٹری اوقاف کی ایسی کوئی پاورز نہیں ہیں۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ایسی چیز آگئی ہے، جس کی تحقیق کی ضرورت ہے،کوئی ایسا طریقہ بتادیں جس پر آپ بھی متفق ہوں۔ چیف جسٹس نے نواز شریف کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ تحقیق خود کرائیں لیکن بیرسٹر ظفر اللہ سے نہ کرائیں، یہ سیاسی آدمی ہوگئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ میں چاہتا ہوں کہ 2 بار کا وزیراعلیٰ اور 3 بار کا وزیراعظم کلیئر ہو۔ سابق وزیراعظم نے جواب دیا کہ آپ جو کہہ رہے ہیں میں اس سے اتفاق کرتا ہوں۔ سماعت کے آخر میں چیف جسٹس نے نواز شریف سے استفسار کیا کہ تحقیقات کا طریقہ کار کیا ہو، آپ خود منصف بن جائیں۔ تحریری طور پر عدالت کو طریقہ کار بتا دیں۔ اس کے ساتھ ہی پاکپتن اراضی کیس کی سماعت ایک ہفتے تک کیلئے ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ سماعت پر میاں صاحب پیش نہ ہوں، بذریعہ وکیل موقف پیش کریں۔

ای پیپر-دی نیشن