• news

پانامہ فیصلے نے نئے پاکستان کی بنیاد رکھ دی : عمران خان : پارلیمنٹ سپریم‘ تعاون چاہتے ہیں : چیف جسٹس

اسلام آباد ( نوائے وقت نیوز/ نمائندہ نوائے وقت) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی لازم و ملزوم ہیں، قانون کی حکمرانی سے سے پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے، چیف جسٹس نے پاناما لیکس کا غیر جانبدارانہ فیصلہ کرکے نئے پاکستان کی بنیاد رکھ دی ہے، جو کام چیف جسٹس ثاقب نثار نے کئے وہ جمہوری حکومت کو کرنے چاہیے تھے، پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنانے کےلئے کوششیں کرتے رہیں گے، ڈکٹیٹر ہمیشہ ڈیموکریٹ اور ڈیمو کریٹ ہمیشہ ڈکٹیٹر بننے کی کوشش میں لگا رہتا تھا، ڈیم منصوبہ 5سال میں کبھی نہیں بنتا، ہم نے سول، فوجداری قوانین میں تبدیلی کے لیے 6 نئی تجاویز تیار کی ہیں، پوری کوشش کر رہے ہیں کہ قانون سازی کے ذریعے پرانا نظام عدل تبدیل کریں۔ اسلام آباد میں بڑھتی آبادی پر فوری توجہ کے موضوع پر منعقدہ سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار کا شکرگزار ہوں جنہوں نے پہلے وزیراعظم کو یہاں دعوت دی، نئے پاکستان کی بنیاد ہم نے رکھ دی ہے، وہ معاشرہ ترقی کرتا ہے جہاں قانون کی پاسداری ہو، کیوں کہ کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے جمہوریت اور قانون کی حکمرانی لازم و ملزوم ہے، موجودہ حالات میں نئے پاکستان کے دور کا آغاز ہوا ہے، پانی کے مسئلے کو چیف جسٹس نے اجاگر کیا، ہمیشہ ہر حکومت نے اپنے 5سال کا ہی سوچا، ڈیم منصوبہ 5سال میں کبھی نہیں بنتا، ماضی میں جن ڈیمز اور پانی کے مسائل کے بارے میں سوچا گیا اس میں صرف پاکستان کی ترقی کےلئے ہی سوچا گیا تھا، اس وقت قوم کا احساس کیا جاتا تھا نہ کہ اپنے پانچ سالوں کا، بنگلہ دیش ہم سے آگے نکل چکا ہے، سی ڈی اے وزیراعظم کے ماتحت ہوتا ہے، لیکن پھر بھی سی ڈی اے نے بنی گالہ کے حوالے سے تمام رپورٹ چیف جسٹس کو پیش کی، ماضی کی حکومت میں تمام ادارے حکومت کے مفلوج تھے، اب کے دور میں تمام ادارے آزاد ہیں اور ان کو کسی سے کوئی ڈر نہیں ہے، اب ادارے با اختیار اور اپنے دائرے میں رہ کر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے 6نئے قوانین تیار کرلئے ہیں اور جلد پارلیمنٹ میں لے کر آئیں گے، پاکستان کے اوپر ابھی قرضے کا بوجھ ہے، جلد پاکستان سے یہ بوجھ بھی اتر جائے گا، چین نے سرمایہ کاری کے ذریعے ہی ترقی کی ہے، پاکستان میں باہر سے لوگ سرمایہ کاری کرنے کےلئے ابھی بھی تیار ہیں، سب سرمایہ کاروںکی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی خواہش ہے، بڑے قبضہ گروپ صرف اس لئے بنتے ہیں کیونکہ سول مقدمات کا فیصلہ ہی نہیں ہوتا، اب کوئی اقتدار میں آ کر قانون کو پامال کرنے کا نہیں سوچ سکتا، لاہور میں راوی نہر کا میٹھا پانی پیا جاتا ہے، آج کا راوی سیوریج کا ڈمپ بن گیا ہے، آج کا لاہور کنکریٹ کا جنگل بن گیا ہے، گورنر ہاﺅس کی دیوار توڑنے کا مقصد ہے کہ لوگوں کو بھی اس کا سبزہ نظر آئے، ملک میں جنگلات کو بے دردی سے ختم کیا گیا ہے، ہمیں اپنے بچوں کو بڑھتی آبادی کے حوالے سے بتانا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کو سکول میں پاپولیشن پلاننگ اور ماحولیات پڑھنا ہو گی، شہر جس طرح سے بڑھتے جا رہے ہیں ملک میں مزید مسائل بڑھ رہے ہیں، ہم شارٹ ٹرم سوچ کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوئے ہیں، بڑھتی آبادی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس کو چیف جسٹس نے اجاگر کیا، اس حوالے سے اب ہم نے ٹاسک فورس بنا دی ہے، اب اس مہم میں علماءکرام کو بھی اقدامات اٹھانے ہوں گے، اب آبادی کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے اور ملک میں درخت کم ہوتے جا رہے ہیں، بڑھتی آبادی کو کنٹرول کرنے کےلئے اس مہم میں گھر گھر تک لوگوں کو آگاہی دینا ہو گی، بڑھتی آبادی نے ماحول کو خراب کر دیا ہے، لوگوں میں جب شعور آ جائے گا تو اس مسئلے پر ہم جلد قابو پالیں گے، چیف جسٹس کو قوم کی جانب سے خراج تحسین پیش کرتا ہوں، برطانیہ میں میگنا کارٹا بادشاہ کو قانون کے نیچے لایا، بادشاہ کو قانون کے نیچے لانے کی سوچ سے برطانیہ میں قانون کی جدوجہد شروع ہوئی۔ جمہوری حکومتیں صرف 5 سال کا سوچتی تھیں کہ اگلا الیکشن کیسے جیتیں، جب منگلا اور تربیلا ڈیم بنے تب پاکستان میں آگے کا سوچا جاتا تھا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میرے کانوں نے یہ بھی سنا کہ اچھا ہوا بنگلہ دیش الگ ہوگیا وہ بوجھ تھا لیکن آج وہی بنگلہ دیش آگے کی طرف جارہا ہے۔ عمران خان نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ طاقتوروں کو قانون کے دائرے میں لائے، پانامہ کیس میں کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ وزیراعظم کو سزا ہو سکتی ہے، قانون کی حکمرانی کا جن اب بوتل سے باہر نکل چکا ہے اب اسے کوئی بند نہیں کر سکتا، کوئی بھی حکمران اب قانون سے ہٹ کر نہیں چل سکتا، حکومت اپنا کام نہ کرے تو دوسرے اداروں کو کرنا پڑتا ہے۔ عمران خان نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ قانون کی حکمرانی کی کوشش کر رہے ہیں جو بہت اچھی چیز ہے آپ ہر طاقتور کو قانون کے نیچے لاتے ہیں یہ سب پاناما سے شروع ہوا اس کا کوئی بھی تصور نہیں کر سکتا تھا کہ برسراقتدار وزیراعظم قانون کے نیچے آ سکتا ہے۔ عمران خان نے مزید کہا کہ پاکستان میں سول اور کرمنل قانون فرسودہ ہو چکے ہیں قبضہ گروپ اسی وجہ سے بنے کہ سول مقدمات کا فیصلہ ہی نہیں ہوتا۔ ہم نے 6 نئے قوانین تیار کئے ہیں جو اسمبلی میں لا رہے ہیں۔ سول کرمنل پروسیجر کورٹ کا قانون بھی لا رہے ہیں جس میں کچھ وقت لگے گا۔ کوشش کر رہے ہیں قانون سازی کے ذریعے اس میں جدت لائیں، ہم نے سو دن میں قانون سازی کر لی ہے جس پر خوشی ہے۔ اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے گورنر ہا¶س لاہور کی دیواریں گرانے کے حکم کی بھی وضاحت کی اور کہا کہ گورنر ہا¶س کی دیواریں اس لئے توڑنا چاہتا ہوں کہ اندر سے گورنر ہا¶س کا گارڈن نظر آئے۔ لاہور میں درخت ختم ہو گئے ہیں یہ سب ماحولیات اور آبادی سے منسلک ہیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ 30 سال بعد آبادی 45 کروڑ ہو گی وسائل کم ہو رہے ہیں اور آبادی بڑھ رہی ہے۔ 21 صدی میں 19 ویں صدی کا قانون چلا رہے ہیں، ججز کی تعداد بڑھانی ہے اور عدالتی ڈھانچے کو اپ ڈیٹ کرنا ہے، وزیر اعظم معلوم کریں کہ گزشتہ چالیس سالوں میں ڈیم کیوں نہیں بنے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ریاست مدینہ کے قیام کے لیے حکومت کے ساتھ ہیں، پارلیمنٹ سپریم ہے، وزیراعظم اور پارلیمنٹ کی معاونت کی بہت ضرورت ہے۔ ہم آنے والی نسلوں کو کچھ دے کر جانا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے سمپوزیم سے خطاب کرتے کہا کہ وسائل محدود اور ضروریات لامحدود ہیں، 60سال میں ہم نے آبادی کے کنٹرول پر کوئی توجہ نہیں دی جبکہ بڑھتی آبادی سے ہمارے وسائل مسلسل دباﺅ کا شکار ہیں۔ لاہور جیسے بڑے شہر تعمیرات سے بھر چکے ہیں اور آنے والے سالوں میں پانی کی کمی سے تباہ کن اثرات ہوں گے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ گزشتہ 40سال سے کوئی نیا ڈیم نہیں بنا جبکہ 2025میں پانی کی قلت بحران کی صورت اختیار کر جائے گی۔ ملک میں پانی کے بہتر استعمال کو فروغ دینا ہے۔ چیف نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ سالانہ 7ارب گیلن پانی زمین سے نکالا جاتا ہے، زمین سے نکالے گئے پانی کا تین چوتھائی ضائع کر دیاجاتا ہے۔ چیف نے کہا کہ اپنے علم کو بہتری کیلئے استعمال کرنے والی قومیں ترقی کرتی ہیں، آبادی پر قابو پانے کے لئے سنجیدگی سے اقدامات کرنا ہوں گے اور آبادی پر کنٹرول کے لیے میڈیا کے ذریعے آگاہی دینی ہے۔ آگاہی نہ دی تو 30سال بعد پاکستان کی آبادی 45کروڑ ہو جائے گی۔ پاکستان کی بقا کو یقینی بنانے کیلئے آباد ی کو کنٹرول میں رکھنا ہے، بڑھتی ہوئی آبادی ایک عفریت ہے، آبادی کوکنٹرول کر نے کیلئے سپریم کورٹ نے جو حصہ ڈالنا تھا وہ ڈال دیا ہے۔ چیف جسٹس نے عدالتی نظام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انصاف کے نظام کو مضبوط بنانے کیلئے ججز کی تعداد بڑھانا ہو گی۔ مدتیں گزر گئیں لیکن قانون سازی نہیں کی گئی، اب وقت آگیا ہے قانون میں اصلاحات لائی جائیں۔ چیف جسٹس نے اپنے خطاب میں کہا کہ درد کیساتھ کہنا پڑتا ہے جوڈیشل سسٹم پر صدیوں کا بوجھ ہے ایک سول جج کے پاس روزانہ 160 مقدمات آتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا1850 کا قانون آج قابل عمل ہے؟ آج ہر پیدا ہونے والا بچہ ایک لاکھ 21ہزار روپے کا مقروض ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم اور پارلیمنٹ کی معاونت بہت ضرورت ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پارلیمنٹ کی کارروائی کا بائیکاٹ کرنا چھوڑ دیا جائے، پارلیمنٹیرینز اپنا کام قانون سازی کریں۔ وزیراعظم مدینہ کی ریاست قائم کرنے کی بات کرتے ہیں اس خواب اور تصور میں عدلیہ شانہ بشانہ ہے اور نیک نیتی سے وزیراعظم کے اس خواب کی تعبیر کو پانے کی کوشش کریں گے، عدلیہ کو وہ ٹولز دیے جائیں کہ وہ آج کے تقاضوں کو پورا کرسکے، عدلیہ اب اس بوجھ کو اٹھانے کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ برسہا برس کیس چلتا رہے۔سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے مولانا طارق جمیل نے کہا ہے کہ آبادی کی شرح میں تیز ترین اضافے کا مسئلہ پنجاب، سندھ اور خیبر پی کے میں ہے جبکہ کانفرنس یہاں اسلام آباد میں کی جا رہی ہے، ہمارا مسئلہ فیملی پلاننگ کی بجائے حصول علم کا ہے جس کے ذریعے تمام مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے نظام عدل کے حوالے سے کہا کہ ایک دن کا عدل طارق جمیل کے ساٹھ سال کی بندگی تبلیغ سے بہتر ہے۔ عمران خان پہلے حکمران ہیں جنہوں نے فلاحی ریاست کا تصور پیش کیا ہے۔ اصل بات حکمرانوں کی نیت کی ہے اگر وہ نیک نیتی سے ایک کام کا آغاز کرتے ہیں تو اللہ تعالی ان کی مدد کرتا ہے۔ انشاءاللہ یہاں بھی فلاحی ریاست نیک نیتی کے ساتھ کام کرتے ہوئے بن سکتی ہے۔ مولانا طارق جمیل کا کہنا تھا کہ آبادی میں اضافے کی بڑی وجہ غربت ہے، معاشرتی دبا¶ بھی آبادی کے بڑھنے کی وجہ ہے، اللہ تعالی نے انسان کو علم آگہی اور سوچ سمجھ کیلئے دیا ہے، پاکستان کا منصوبہ بندی سے بھی بڑا مسئلہ علم کی کمی ہے۔ عمران خان پہلے وزیراعظم ہیں جنہوں نے مدینے کی فلاحی ریاست کا تصور پیش کیا، مدینے کی فلاحی ریاست کا تصور پیش کرنے پر عمران خان کو سلام پیش کرتا ہوں، نظام عدل کی مضبوطی سے ہی امن کی ریاست بنتی ہے۔ محکمہ پولیس سے سیاسی دبا¶ کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ سید بابر علی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایران، بھارت، انڈونیشیا اور سنگاپور نے موثر اقدامات کے ذریعے آبادی میں اضافے پر قابو لیا ہے۔ ہمیں بھی اس حوالے سے موثر اقدامات اٹھانے پڑیں گے۔ ہم ترقی پسندانہ سوچ کے ذریعے آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو پا سکتے ہیں۔ انہوں نے اپیل کی کہ چیف جسٹس نے جس طرح ڈیم کی تعمیر پر قوم کو اکٹھا کر دیا ہے اس طرح آبادی کے مسئلے پر بھی قوم کو اکٹھا کریں۔ سابق وزیر اطلاعات جاوید جبار نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج ایک اہم موقع ہے کہ عدلیہ اور انتظامیہ ایک اہم قومی مسئلے پر متفق نظر آ رہے ہیں، ہمیں اس حوالے سے متفقہ طور پر قابل قبول اور مقصدیت سے بھرپور بیانیہ سامنے لانا چاہئے۔ اس معاملے میں مذہبی رہنما¶ں کو بھی ساتھ ملا کر چلنا چاہئے ہر ضلع میں اس طرح کے سیمینارز اور سمپوزیم کا انعقاد کر کے لوگوں میں فیملی پلاننگ کے حوالے سے شعور اجاگر کیا جائے اور لوگوں کو فیملی پلاننگ کے حوالے سے سہولیات فراہم کی جائیں۔ ایسا نہ ہو کہ بیانیہ کچھ اور ہے اور جب لوگ ہسپتالوں میں پہنچیں تو وہاں ان کو کسی قسم کی سہولیات دستیاب نہ ہوں۔علاوہ ازیں وزیر اعظم اور چیف جسٹس ثاقب نثار نے ون آن ون ملاقات بھی کی۔


عمران

ای پیپر-دی نیشن