• news

فوج پورے ملک کی‘ ہر پارٹی کی حکومت قبول : فوجی ترجمان

اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) عسکری ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ افواج کسی شخص، پارٹی یا گروہ کی نہیں پورے ملک کی افواج اور حکومت کا حصہ ہیں۔ فوج نہیں بلکہ عوام حکومت کو اعتماد دیتے ہیں جس روز عوام کا بھروسہ ختم ہوا نئی حکومت آ جائے گی۔ پختون تحفظ موومنٹ وہ ریڈ لائن عبور نہ کرے کہ ریاست کو اپنی عملداری کیلئے طاقت استعمال کرنا پڑے۔ پاکستان اب ایسے مقام پر آ گیا ہے جس سے آگے بہت اچھا یا بہت خراب وقت آئے گا۔ فاٹا، بلوچستان اور کراچی میں امن و امان کی صورتحال بہت بہتر ہو گئی ہے۔ میڈیا صرف چھ ماہ پاکستان کا مثبت تشخص اجاگر کرے تو حالات بدل جائیں گے۔ کنٹرول لائن پر بھارت کی فائرنگ سے تاریخ میں سب سے زیادہ شہری ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے جمعرات کی سہ پہر ایک تفصیلی پریس کانفرنس میں ان خیالات کا اظہار کیا جس دوران انہوں نے فوج کے بارے میں کم و بیش تمام تر سیاسی سوالات، سرحدوں پر اور اندرون ملک سلامتی کی صورتحال، امریکہ، افغانستان، بھارت اور چین کے ساتھ تعلقات، خطہ میں نئے دفاعی سودوں، لاپتہ افراد، فوج میں احتساب کے عمل سمیت لاتعداد موضوعات کا احاطہ کیا۔ پریس کانفرنس کے دو ادوار منعقد ہوئے۔ پہلا دور ٹیلیویژن پر براہ راست نشر کیا گیا۔ دوسرا حصہ لائیو نہیں تھا لیکن ڈی جی آئی ایس پی آر نے باقی رہ جانے والے سوالات کے آن دا ریکارڈ جواب دئیے جب کہ پریس کے ساتھ تعلقات کے بارے میں سوال و جواب آف دا ریکارڈ رکھے گئے لیکن انہوں نے کھل کر ہر سوال کا جواب دیا اور فوج کے مﺅقف کی وضاحت کی۔ وزیراعظم عمران خان کے حالیہ انٹرویو کے حوالے سے سوال کیا گیا کہ کیا فوج حکمران جماعت کے منشور کے ساتھ کھڑی ہے تو ترجمان نے جواب دیا کہ انہوں نے تین بار وزیر اعظم کا مذکورہ انٹرویو دیکھا۔ ایک جملے کو سیاق و سباق سے الگ کر کے ہر کوئی اس کی من پسند تشریح کرنے کا حق رکھتا ہے لیکن اس جملے کو باقی گفتگو سے ملا کر سنا جائے تو ایسا کوئی تاثر پیدا نہیں ہوتا۔ ایک سوال یہ تھا کہ کیا حکومت سو دن میں فوج کا اعتماد کھو چکی ہے تو ترجمان نے جواب دیا کہ فوج نہیں بلکہ قوم حکومت کو اعتماد دیتی ہے۔ حکومت اور فوج کا تعلق سٹرٹیجک لیول پر ہوتا ہے جس دن عوام کا اعتماد ختم ہوا اسی دن نئی حکومت آجائے گی اور جس پارٹی کی بھی حکومت ہوگی فوج قبول کرے گی۔ کسی بھی موقع پر فوج نے کسی بھی حکومت کے فیصلے کو غلط نہیں کہا۔ انہوں نے کہا کہ افواج پاکستان اس ملک کی افواج ہیں۔ ان کا تعلق ایک پارٹی، بندے یا ایک صوبے سے نہیں، ہم حکومت کا ادارہ ہیں، آج پی ٹی آئی کی حکومت ہے، اس سے پہلے کسی اور پارٹی کی تھی، ہمیں ہر پارٹی کی حکومت قبول ہے۔ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ حکومت کو اپنی رائے دیتی ہے۔ تمام اداروں کو مل کر قومی مقصد کے لیے کام کرنا چاہیے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ 2017 میں بھارت کی جانب سے 1881 سیز فائر کی خلاف ورزیاں ہوئی تھیں، لیکن رواں برس کنٹرول لائن پر سیز فائر کی 2593 خلاف ورزیاں ہوئیں جن کے نتیجے میں 55 شہری شہید اور 300 زخمی ہوئے۔ تاریخ میں یہ سب سے زیادہ شہری ہلاکتیں ہیں۔ بھارتی فورسز جان بوجھ کر عام آبادی کو نشانہ بتاتی ہیں۔ تاہم پاکستان ایسی جوابی کارروائی نہیں کرتا جس میں عام شہریوں کا قتل عام ہو۔ پاکستان کو سیکولر ملک بنانے کے بارے میں بھارتی آرمی چیف کے بیان پر انہوں نے کہا کہ ہم تو اسلامی ریاست ہیں۔ بھارت پہلے خود تو سیکولر ریاست بن کر دکھائے۔ انہوں نے مسلمانوں سمیت اقلیتوں کا کیا حال کر رکھا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں اقلیتوں کا تحفظ کیا جاتا ہے ان کے مذہبی مقامات کو سکیورٹی فراہم کی جاتی ہے، لیکن بابری مسجد کے ساتھ کیا ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ ہم نے دوسرے مذہب کے احترام میں کرتار پور راہداری کو کھول دیا۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے، لہٰذا بھارت کو ہمیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہمیں کونسا ملک بننا چاہیے۔ ہم مسلمان ہیں، بھارت پاکستان کو ایسے ہی برداشت کرے جیسا پاکستان ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم ڈٹ کر کھڑے ہیں، بھارت کیا بڑا اقدام کرے گا، اگر جارحیت کرے گا تو اس کا جواب دیں گے۔ انہوں نے جنگ بھی کرکے دیکھ لی، بھارت جنگ کرنے آئے گا تو دیکھ لیں گے۔ انہوں نے وزیر اعظم کے اس مﺅقف کا اعادہ کیا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی اور کی جنگ دوبارہ نہیں لڑیں گے، یہ جنگ ہم پر مسلط کی گئی تھی، سرحد پار سے ٹی ٹی پی داخل ہوئی اور پھر ہم نے اسے اپنی جنگ سمجھ کر لڑا، اب کسی اور کی جنگ نہ لڑنے سے مقصد ہے کہ اپنی طرف سے ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد عناصر کا صفایا کردیا، اب ہم اپنی سرحد کو مضبوط بنارہے ہیں، اب اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ افغانستان کی جنگ پاکستان میں نہیں لڑیں گے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ ہمیشہ کہا جاتا رہا ہے کہ پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے، لیکن اب نازک دور سے چلتے ہوئے ہم اس مقام پر آگئے ہیں جسے ہم ”واٹر شیڈ“ کہتے ہیں۔ اس سے آگے یا تو بہت اچھا یا بہت خراب وقت آئے گا، کوئی نازک مقام نہیں آئے گا۔ میری آپ سب سے یہی درخواست ہے کہ ہم ملک کو وہاں لے کر جائیں جہاں لے جانا اس کا حق ہے۔ 70 سال گزر گئے لیکن ہم اب بھی عوام کو بتا رہے کہ ہم نازک دور سے گزر ہے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا کہ یہ نازک دور کیوں آئے اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اس پر بحث ہوئی ہے لیکن نتیجہ نہیں نکلتا، سب ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں۔ اگر ہم ماضی میں بیٹھے رہے تو آگے نہیں جاسکتے، ہم ماضی سے صرف نتیجے لے سکتے ہیں۔ ہم نے کئی جنگیں لڑیں، آدھا ملک گنوادیا، لیکن پچھلے چند سالوں میں بہتری کی طرف آئے، ملک امن کی طرف گیا، معیشت میں بہتری آئی، ہم اس کو پیچھے لے جانا چاہتے ہیں ؟ کیا اس نازک لمحے سے اچھے پاکستان کی طرف نہیں جاسکتے؟ فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ ہم نے ایسا ہی رہنا ہے یا کامیابیوں کے ساتھ آگے چلنا ہے۔انہوں نے کہا کہ قوم کو اعتماد دینا حکمرانوں کا کام ہے۔ تحریک لبیک نے ریاست کیخلاف بات کی۔ قانون کے مطابق کارروائی ہو گی۔ ہم واٹر شیڈ پر کھڑے ہیں۔ آئیں مل کر پاکستان کو مضبوط بنائیں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ امریکہ کو افغانستان میں جنگ میں اتنی کامیابی نہیں ہوئی جتنی پاکستان نے حاصل کی۔ پاکستان سیاسی مذاکرات کی بات کرتا ہے اور ہر وہ قدم اٹھا رہا ہے جو سیاسی مذاکرات کو کامیاب کرے اور اب امریکہ خواہش کر رہا ہے کہ کسی طرح سے مذاکرات ہوجائیں۔ تاہم انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ہمارا ان پر اتنا اثرورسوخ نہیں، لیکن ہم جتنا کردار ادا کرسکتے ہیں کریں گے۔ کرتارپور راہداری کھولنے سے متعلق انہوں نے کہا کہ یہ راہداری یکطرفہ ہوگی جو بھارتی زائرین کے لیے ہوگی، پاکستان سے کوئی بھی شہری اس راہداری سے بھارت نہیں جاسکے گا۔ منظور پشتین کی قیادت میں کام کرنے والی پختون تحفظ موومنٹ کے بارے میں کھل کا بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس موومنٹ نے چیک پوسٹوں پر تلاشی ختم کرنے، بارودی سرنگین صاف کرنے اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے بارے میں تین مطالبات پیش کئے تھے جن پر ریاست پہلے ہی کام کر رہی تھی لیکن موومنٹ اب ان مطالبات سے آگے بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب آپ حالت جنگ میں ہوتے ہیں تو حکمت عملی دوسری ہوتی ہے جبکہ جب بحالی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو آپ دوسرے طریقے سے سوچ رہے ہوتے ہیں۔جنگ زدہ علاقوں میں فوجی چیک پوسٹس کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 2016 میں خیبرپختونخوا اور سابق قبائلی اضلاع میں چیک پوسٹ کی تعداد 4 سو 69 تھی لیکن آج ان کی تعداد 3 سو 31 ہے جس دن فوج کو ایسا محسوس ہوگا کہ یہاں سیکیورٹی کی صورتحال ایسی ہوگئی ہے کہ یہاں اب ایک چیک پوسٹ کی بھی ضرورت نہیں ہے تو انہیں ہٹادیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی جانب سے بہت زیادہ بہتری کرلی، یہاں تعمیراتی کام کا بھی آغاز ہوگیا ہے، لیکن افغانستان کا اپنے دہشتگروں پر، سرحد پر اور سرحدی علاقوں پر کوئی کنٹرول نہیں ہے جس کا پاکستان کو خطرہ ہے اور اسی وجہ سے اس علاقے میں 2 لاکھ فوج تعنیات ہے۔ خیبرپختونخوا اور فاٹا میں بارودی سرنگ ہٹانے کیلئے انجینئرز کی 43 ٹیمیں وہاں کام کر رہی ہیں اور انہوں نے ابھی تک 44 فیصد علاقہ بارودی سرنگوں سے کلیئر کردیا۔ لاپتہ افراد کے بارے میں پی ٹی ایم کی جانب سے 7 سے 8 افراد کی فہرست آئی۔ انہوں نے بتایا کہ 2011 میں لاپتہ افراد کمیشن بنایا گیا جس میں لاپتہ افراد سے متعلق شکایتوں پر سماعت ہوتی ہیں، کچھ لوگوں نے براہِ راست عدالتوں میں بھی درخواستیں دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالتیں روزانہ کی بنیاد پر ان کی سماعت کر رہی ہے جس کی بدولت سات ہزار میں سے تقریباً 4 ہزار کیسز حل ہوچکے ہیں، اور ان میں جو کیسز حل نہیں ہوئے ان میں سے تقریباً 2 ہزار کیسز لاپتہ افراد کمیشن کے ہی پاس ہیں۔ پی ٹی ایم سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم ان پر اس وقت اس لیے سختی نہیں کی کیونکہ انہوں نے گزشتہ 15 سال سے جنگ دیکھی، وہ لوگ دکھی ہیں اور اس جنگ سے ان کے اپنے متاثر ہوئے ہیں۔ اب تک پی ٹی ایم نے پ±ر تشدد کارروائی نہیں کی، یہ حد عبور کی تو ان کے ساتھ وہی ہوگا جو ریاست اپنی رٹ قائم کرنے کے لیے کرتی ہے۔پی ٹی ایم کس طرح چل رہی ہے اس کے بارے میں کسی دن بتایا جائے گا۔ پی ٹی ایم ریڈلائن عبور نہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے 15 سال جنگ لڑی، جس کے دوران بہت سے دہشت گرد مارے بھی گئے، اس وقت بھی تحریک طالبان پاکستان کی فورس وہاں بیٹھی ہے جس میں تین تا چار ہزار افراد ہیں تو یہ کیسے ثابت ہوگا کہ لاپتہ افراد ان کی فورس میں شامل نہ ہوں، یا کسی اور جگہ لڑائی ہیں استعمال نہ ہورہے ہوں۔ یہ بھی یاد رکھا جائے کہ 70 ہزار پاکستانی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لڑتے ہوئے شہید یا زخمی ہوئے، وہ بھی ہم میں سے ہی ہیں۔ترجمان نے کہا کہ پاک فوج منظم ادارہ ہے ۔ فوج میں چین آف کمانڈ اور نظم و ضبط ہے جبکہ احتساب سے متعلق ایک پوری برانچ ہے جس کی سربراہی ایک لیفٹننٹ جنرل کرتا ہے جس میں میجر جنرلز بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس برانچ کا کام ہی یہ ہے وہ پاکستان آرمی کے نظم و ضبط دیکھے اور احتساب کرنا ہے۔پاک فوج کے ترجمان نے بتایا کہ گزشتہ 2 سالوں میں 4 سو سے زائد فوجی افسران کو سزائیں دی گئیں اور یہ سزائیں احتساب کے تحت ہی دی گئیں، جن میں سروس کی معطلی اور جیل بھی شامل ہے۔ ایک افسر کو تو محض دس ہزار روپے کی بدعنوانی پر نوکری سے برطرف کیا گیا۔ داخلی سلامتی کے حوالہ سے ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا میں 2013 کے دوران وہاں ایک ماہ میں 6 سے 7 دہشت گرد حملے ہو جاتے تھے، تاہم اب یہ صورتحال بہتر ہے۔بلوچستان میں میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی سے کمی آئی ہے۔سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہاں فراریوں نے ہتھیار ڈالے ہیں اور گزشتہ 3 سالوں میں 2 ہزار سے زائد فراری قومی دھارے میں شامل ہوئے۔انہوں نے بتایا کہ افواج پاکستان کی زیادہ تر توجہ بلوچستان کی جانب ہے، تاکہ وہاں صورتحال بہتر ہو۔میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ گذشتہ چند سالوں میں کراچی میں امن وامان کی صورتحال میں بہت بہتری واقع ہوئی ہے، جس کا کریڈٹ پاکستان رینجرز سندھ کو جاتا ہے، جس نے جانفشانی سے کام کیا ہے اور اس شہر کی روشنیاں واپس لوٹائی ہیں جبکہ پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔کراچی ایک زمانے میں جرائم کی شرح کے لحاظ سے چھٹے نمبر پر تھا لیکن اب یہاں صورتحال اس حد تک بہتر ہوئی ہے کہ کراچی اب عالمی رینکنگ میں سڑسٹھویں نمبر پر آ گیا ہے۔، شہر میں دہشت گردی کے واقعات میں 99 فیصد جبکہ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں 93 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔آپریشن رد الفساد کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ اب تک اس میں 44 بڑے آپریشن ہوئے ہیں جبکہ 42 ہزار سے زائد سرچ آپریشن ہوئے ہیں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان کا اب افغان طالبان پر وہ اثر و رسوخ نہیں ہے جیسا ماضی میں تھا، پہلے تھا تاہم کچھ روابط استعمال کرتے ہوئے پاکستان امریکا کی مدد کرے گا۔پاکستان ہمیشہ کہتا رہا ہے کہ افغان تنازع کبھی طاقت سے حل نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے میڈیا کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس کی طاقت ایسی ہیں جسے کوئی نہیں روک سکتا اور میڈیا ہی ففتھ جنریشن وار جنگ میں پہلی دفاعی لکیر ہے۔انہوں نے میڈیا سے درخواست کی کہ آپ صرف 6 ماہ کے لیے پاکستان کی اچھی تصویر دکھائیں، اس کی ترقی دکھائیں پھر دیکھیں کہ پاکستان کہاں پہنچتا ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ تحریک لبیک نے ریاست کے خلاف بات کی اب وہ ریاست کی حراست میں ہے، تحریک لبیک کے خلاف ریاستی قوانین کے مطابق کارروائی کی جائے گا۔
آصف غفور

ای پیپر-دی نیشن