آبادی کنٹرول ٹاسک فورس میں ڈاکٹر اور مذہبی سکالر بھی شامل کئے جائیں!
مکرمی! جیسا کہ 10-12 بچے غریب آدمی کی پہچان ہے اور یہ سائیکی اس قدر سخت اور غیر لچکدار ہے کہ اسے صرف آگاہی لیکچر سے تبدیل کرنا انتہائی مشکل ہے۔ آبادی کے بھیانک پھیلائو پر صدر ایوب نے خاندانی منصوبہ بندی کا فلاحی منصوبہ شروع کیا جسکی ناخواندہ معاشرے نے سخت مخالفت اور تنقید کی اور ’’سیماں جمے دو دو ہم کو بولے نو نو (No , No) ‘‘ کا نعرہ لگا کر بڑے بڑے جلوس نکالے۔ مکرمی! ڈکٹیٹر مسولینی نے علامہ اقبالؒ کو کچھ مشکل مسائل ڈسکس کرنے کے لئے اٹلی آنے کی دعوت دی اور اُن سے پہلا مسئلہ بڑھتی آبادی کے مسائل کے سدباب کے بارے پوچھا ڈاکٹر صاحب نے نئے شہر بسانے کا مشورہ دیا تو مسولینی نے نئے شہر بسانے میں مصلحت کی ٹھوس دلیل پوچھی جس پر ڈاکٹر صاحب نے جواباً بتایا کہ شہر کی آبادی بڑھنے سے مسائل اور جرائم بڑھتے ہیں جن کا حل اور تدارک مشکل ہو جاتا ہے۔ نئے شہر کی آبادی کم ہونے سے مسائل اور جرائم کم اور ان حل اور تدارک آسان ہوتا ہے۔ مسولینی اس بہترین حکمت عملی پر خوش ہوا۔ داد دی جس پر ڈاکٹر صاحب نے جواباً فرمایا کہ یہ حکمت عملی میری نہیں بلکہ میرے حکمت والے نبیؐ محتشم حضرت محمدؐ کا فرمان ہے۔ پاکستان بن جانے کے بعد مولانا حسرت موہانی پاکستان نہ آئے اور بھارت میں ہی رہے لوگوں نے پوچھا مولانا پاکستان کیوں نہیں جاتے تو فرمایا کہ موت تو دونوں جگہ ہے۔ یہاں ہندو مجھے مسلمان سمجھ کر مارے گا اوروہاں مولوی گستاخ رسول سمجھ کر۔ تو میں مسلمان مرنا پسند کرونگا گستاخ رسول ہو کر نہیں۔ لہٰذا نئے شہر کی حد بندی میں بنجر اور زرعی زمین میں مضبوط پارٹیشن ضروری ہو۔ المختصر! زیادہ اولاد کی خواہش کیلئے ڈاکٹر صاحب زچہ بچہ کی صحت کے نقصانات اور زیادہ اولاد خدا کے حکم کے ساتھ دوسری ذمہ داریوں کے بارے مولوی صاحب آگاہی لیکچر دیں لیکن باایں ہمہ بغیر تادیبی کارروائی ٹاسک فورس بُری طرح فیل ہو جائیگی!
؎؎بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا یہ تیری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے!
(محمد اسحاق مغلپورہ …03454324464 )