مصنوعی مہنگائی کے ذمہ داروں کیخلاف وزیراعلیٰ کی پالیسی
آزاد ویلفیئر فائونڈیشن کے زیر اہتمام لاہور کے اہم سیاسی سماجی اور علمی دانش وروں کی میٹنگ میں ملکی صورتحال زیر بحث تھی۔ معروف دانشور اور پاکستان مزدور محاذ کے سیکرٹری جنرل شوکت چودھری مہمان خصوصی کی حیثیت سے اور چودھری ریاض، اشرف یاد، منیر انصاری اور عدیل ماہرین کی حیثیت سے شریک تھے۔ دوسری اہم باتوں کے ساتھ ساتھ ڈالر کے مہنگا ہونے اور اس کے نتیجے میں مارکیٹ میں مہنگائی کے عذاب سے موجودہ حکومت کے نمٹنے کا تجزیہ کیا جا رہا تھا۔ ظفر اقبال کی طرف سے سوال یہ اٹھایا گیا کہ ایک ایسے ملک میں جہاں بیرون ملک کام کرنے والے ان گنت محب وطن پاکستانیوں کی طرف سے اربوں ڈالر بھجوائے جا رہے ہیں وہاں ڈالر کے مقابلے میں روپے کو ڈی ویلیو کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا سٹیٹ بنک کے گورنر ازخود کسی اور کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو نیا پاکستان کی دعویدار حکومت خاموش کیوں ہے۔ مہنگائی کا سبب کیا محض ڈالر 139 رہے کی بلند تک جانا ہے یا کچھ اور کردار ہاتھ دکھا رہے ہیں۔ شرکاء میں سے اکثر کا کہنا تھا کہ جیسے 1970ء کی دہائی میں بھٹو کے نئے نعرے سے خوفزدہ ہو کر اُس وقت اپنے مفادات کو خطرے میں دیکھ کر بہت سی قوتیں اور سیاسی عناصر اکٹھے ہوئے تھے اور ملک میں چینی ، گھی وغیرہ کی وافر مقدار میں موجودگی کے باوجود مصنوعی قلت پیدا کر کے راشن ڈپو اور عام آدمی کو قطاروں میں کھڑا کر کے بحران پیدا کیا گیا تھا اسی طرح اب عمران خان کو ناکام بنانے کے لئے ان کے نعرے سے خوفزدہ طاقتیں، شخصیتیں اور اندرون اور بیرون ملک عناصر اکٹھے ہو کر مسائل پیدا کرنے میں لگے ہیں اور ڈالر کا بحران ان مسائل میں سے ایک ہے۔ مارکیٹ میں مصنوعی مہنگائی پیدا کی جا رہی ہے اور ان اشیاء کی قیمتیں بھی ڈالر مہنگا ہونے کی آڑ میں بڑھائی جا رہی ہیں جو مقامی ہیں۔ اس پس منظر میں اس بات کو خاص طور پر سراہا گیا کہ پنجاب میں جس شخصیت کو یعنی وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو ابتدا میں بہت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا، اُس نے چاروں صوبوں میں سب سے پہلے اس سازش سے نمٹنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ گزشتہ روز ایک ہنگامی اجلاس میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے اقدامات کا جائزہ لیا گیا اور ضلعی پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی تشکیل نو کر کے انہیں حقیقی معنوں میں فعال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان کمیٹیوں میں سول سوسائٹی اور منتخب نمائندوں کو شامل کیا جائے گا۔ مصنوعی مہنگائی پیدا کرنے والے عناصر کے خلاف ہنگامی بنیادوں پر کریک ڈائون ہو گا اور یہ کمیٹیاں ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف کارروائی کی رپورٹ مسلسل وزیر اعلیٰ ہائوس بھجوائیں گی۔ ڈپٹی کمشنر کی سطح پر تمام اضلاع کے حکام بھی آنکھیں کھلی رکھیں گے اور جزا و سزا یعنی انعام اور باز پرس کا سلسلہ ساتھ ساتھ چلے گا۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے مصنوعی مہنگائی کے رحجان پر قابو پانے کا چیلنج قبول کیا ہے تو انہیں اب ان فیصلوں پر عمل درآمد کے لئے اپنی آئینی طاقت کو بے رحمی سے استعمال کرنا ہو گا۔ پنجاب آدھا پاکستان ہے۔ اگر یہاں مصنوعی مہنگائی جیسی سازش کا کامیابی سے مقابلہ ہو گا تو باقی تین صوبوں میں بھی اس ’’سازش‘‘ کو کچلا جا سکے گا جو نئے نعرے کے خلاف بقول تحریک انصاف شروع ہے۔ بات بہت حد تک درست بھی ہے کہ ان اشیاء کو مہنگا کر کے بیچنے کا کیا جواز ہے جو اپنے ملک کی پیدا کردہ ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ یہ جرم تاجر طبقے میں شامل ہی بعض ایسے حضرات کے ہاتھوں ہوتا ہے جو بظاہر نیک ہونے کے دعویدار بھی ہوتے ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے بعض عناصر بھی مصنوعی مہنگائی کے اس جرم میں ملوث ہیں۔ تجارتی عمل کے تانے بانے میں شامل یہ لوگ ناجائز لوٹ مار کو منافع کا نام دیتے ہیں اور تجارت کے اس عمل کو بھی اسلام سے جوڑ کر اپنے دل کو جھوٹی تسلی دیتے ہیں جبکہ یہ حقوق العباد پر واضح ڈاکہ ہے جس کی دین اسلام میں کسی طرح بھی اجازت نہیں ہے۔ ہمارے ہاں ماضی میں بھی اور موجودہ صورتحال میں بھی اس طرح کے مارکیٹ بحران کے ذمہ داران ذاتی ہوس پروری اور منافع خوری کے ساتھ ساتھ سیاسی پوائنٹ بھی سکور کرتے ہیں اور یوں ایک تیر سے دو شکار کر کے اپنے تئیں کامیاب ہونے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں لیکن وقت کا تقاضا یہ ہے کہ حکومت ایک اچھی حکمت عملی سے ایسے عناصر کی چالیں ناکام بنائے۔ اس کے لیے آنکھیں کھلی رکھنے کی ضرورت بھی ہے ا ور دیانتداری، حب الوطنی اور عوام دوستی کے جذبے سے بھی کام لینا ضروری ہے۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اور اوپر کی سطح پر وزیراعظم عمران خان کو اس وقت بہت زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا کیونکہ عوام زیادہ دیر تک معاشی دبائو کا سامنا نہیں کر سکیں گے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ مہنگائی کی ذمہ دار گلی محلوں میں چھوٹے چھوٹے دکانداروں کی پکڑ دھکڑ کر کے دکھاوے تک محدود نہ ہو بلکہ مہنگائی کے اصل ذمہ دار یعنی بڑی منڈیوں میں تھوک کا کاروبار کرنے والوں کا محاسبہ کیا جائے تاکہ مائیکرو لیول پر چیزیں اصل سستی قیمت پر فروخت ہو سکیں۔