پاک فوج وزیر اعظم کے ساتھ اور فیصلہ امریکہ کے ہاتھ
امریکی اخبار واشنگن پوسٹ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں وزیر اعظم عمران خاں نے وار آن ٹیرر پر اپنی پالیسیوں کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان امریکی جنگ کا حصہ نہ بنتا تو بڑی تباہی سے بچ سکتا تھا،مگر اب ہم کرائے کے قاتل اور امریکی بندوق نہیں بنیں گے ، ڈرون حملوںکے آج بھی خلاف ہوں۔وزیر اعظم کے بیان کے دو حصے ہیں۔ ایک ماضی پر تبصرہ ہے اور دوسر امستقبل کے ارادے کا اظہار۔جہاں تک ماضی کا قصہ ہے توو ہ ماضی کا قصہ ہے۔ یہ رفت گزشت والا معاملہ ہے یا گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر۔ مگر مستقبل کی جس پالیسی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اس پر میرا خیال ہے کہ پوری قوم یک سو ہے۔اور پاک فوج بہت پہلے سے کہہ چکی ہے کہ وہ دہشت گردی کی جنگ افغان سرزمین پر جا کر نہیں لڑ ے گی۔ وہاں امریکہ جانے، اتحادی افواج جانیں یا افغان قوم جانے۔وزیر اعظم نے یہ بھی کہا ہے کہ افغان مسئلے کا حل جنگ میں نہیں، مذاکرات میں ہے اور امریکی صدر پہلے ہی وزیر اعظم کے نام ایک خط میں پاکستان سے افغان مذاکرات میں مدد مانگ چکے ہیں۔ اور اطلاعات یہ ہیں کہ پاکستان مقدور بھر یہ امداد کر بھی رہا ہے اور کرتا بھی رہا ہے مگر حتمی فیصلہ افغان طالبان اور امریکہ ہی کر سکتے ہیں ، بہر حال دونوں فریق مذاکرات کی میز کی طرف دیکھ رہے ہیں۔اور کوئی ضروری نہیں کہ یہ مذاکرات شروع بھی ہو سکیں اور کامیاب بھی ہو جائیں مگر پاکستانیوں کی دعا ہے کہ افغان سر زمیں پر امن قائم ہو۔پاکستان تو پہلی افغان جنگ کے اثرات سے چھٹکارہ نہیں پا سکا۔ستر لاکھ افغان مہاجرین نے پاکستان میں پناہ لی جن میں سے چالیس لاکھ آج بھی کیمپوں میں پڑے ہوئے ہیں اور کتنے ہماری آبادیوں میں گھس گئے ہیں، ان کا حساب کتاب کوئی نہیں۔ مگر یہ لوگ نادرا کے دفتروں پر دھاوا بولتے ہیں اور گن پوئنٹ پر پاکستان کے شناختی کارڈ بنواتے ہیں۔ایک بار شناختی کارڈ مل جائے تو پھر سبزپاسپورٹ لینا کوئی مشکل کام نہیں اور اس پاسپورٹ پر وہ دنیا بھر میں جا سکتے ہیں اور وہاں جو بھی گل کھلائیں ، وہ پاکستان کے کھاتے میں جائے گا۔
مجھے یاد ہے کہ پہلی افغان جنگ کی تائید اس وقت کی ایم آر ڈی کے لیڈروںنے نہیں کی تھی اور وہ خبردار کرتے تھے کہ اس کے نتیجے میں پاکستان ہیروئن اور کلاشنکوف مافیا کے شکنجے میں آ جائے گا، ان کی وارننگ پر ہم نے کان نہ دھرے اور آج وہی نتائج بھگت رہے ہیں۔وار آن ٹیرر میں شرکت کا فیصلہ اکیلے جنرل مشرف نے کیا، کسی سے مشورہ تک نہیں کیا۔ پہلی افغان جنگ کا فیصلہ بھی اکیلے جنرل ضیا نے کیا تھا اور آئی ایس آئی کا ایک محدود سا گروپ اس جنگ کو کنٹرول کر رہا تھا، پاکستان کو پیسہ کتنا ملا، اسلحہ کتنا ملا، ا سکاکوئی حساب کتاب نہ تھا، جنرل مشرف کے فیصلے سے بھی پاکستان ڈالروں سے نہال ہوا۔ امریکی صدر ٹرمپ کی ٹویٹ کے مطابق امریکہ نے تیس ارب ڈالر سے زیادہ ادا کئے ۔ اس کا الزام ہے کہ پاکستانی یہ ڈالر کھا گئے اور الٹا دہشت گردوں کو پناہ گاہیں بھی مہیا کرتے رہے۔ یہ الزام آج بھی پاکستان پر عائد ہوتا ہے مگر پاک فوج اس کی صحت سے انکار کرتی ہے اور امریکہ سے اس نے بارہا پوچھا ہے کہ ہمیں کوئی ثبوت دو ، ہم خود ان پناہ گاہوں کو ملیا میٹ کر دیں گے ۔ وزیر اعظم نے واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے سے سوال کیا ہے کہ ایک طرف امریکہ کہتا ہے کہ پاکستان اس کااتحادی ہے مگر ایبٹ آبادآپریشن کرتے وقت ہمیں اعتماد میں بھی نہیں لیتا جو کہ پاکستان کے لئے انتہائی ذلت آمیز سلوک تھا اور ہمیں قطعی پتہ نہیں چل رہاتھا کہ امریکہ ہمیں اپنااتحادی سمجھتا ہے یا دشمن سمجھتا ہے۔ یہ سوالات اہم ہیں اور صرف عمران خان کے نہیں، پوری قوم کے ہیں کہ ہم نے امریکہ کااتحادی بن کر کیا کمایا، کیا صرف بد اعتمادی اورڈو مور۔آج تو پاک فوج بھی نکو نک آ گئی ہے اور جنرل باجوہ موجودہ حکومت کے قیام سے بہت پہلے امریکہ پر واضح کر چکے ہیں کہ اب ڈو مور کی باری امریکہ کی ہے۔ پاکستان یہ مطالبہ سننے کو بھی تیار نہیں۔تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ مشرف اور کیانی یا زرداری ا ور نواز شریف نے جو کیا وہ کیا مگرآج پاک فوج، حکومت اور پوری قوم ایک پیج پر ہیں۔اور اس پس منظر میں امریکہ من مانی نہیں کر سکتا۔ پاکستان نے جیو اسٹریٹیجک صورت حال کو بھی اپنے حق میں بہتر کر لیا ہے اور چین اورروس کے ساتھ سفارت کاری کے ذریعے اپنی پوزیشن مضبوط اور مستحکم بنا لی ہے اور اب پاکستان اس قابل ہے کہ وہ بھارت کو بھی کرتار پور کوریڈور کھول کر ورطہ حیرت میں ڈال دے۔بھارت کے گلے میں یہ ہڈی پھنس چکی ہے۔ وہ نہ اسے نگل سکتا ہے،نہ اگل سکتا ہے۔
پاک امریکہ تعلقات میں بھی اب ایک نیا موڑآ گیا ہے اور اس نے ڈو مور کی گردان کے بجائے افغان مذاکرات میں پاکستان سے مدد مانگی ہے۔پاک امریکہ تعلقات میں اتار چڑھائو نئی بات نہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ امریکہ کا ساتھ نبھایا مگر امریکہ نے پاکستان کی ضرورت کے وقت ٹھینگا ہی دکھایا۔ اس کا بحری بیڑہ آبنائے ملاکا میں پھنس کے رہ جاتا۔افغان جہاد کے ثمرات کی گٹھڑی امریکہ نے سر پہ رکھی اور وہ خطے سے رفو چکر ہو گیا، افغانستان اور پاکستان دونوں کو لہو لہان چھوڑ گیا۔ اسی لئے آج پاکستان کہتا ہے کہ امریکہ افغانستان سے ا سوقت تک نہ نکلے جب تک کابل حکومت مستحکم کنٹرول حاصل نہ کر لے اور افغان انفرا سٹرکچر جو امریکہ نے سترہ برس میں تباہ کیا ہے، ا سکی تعمیر نو وہ خود مکمل نہ کر دے ۔ پاکستان بھی ادھڑا پڑا ہے۔ صرف نیٹو کے ٹرکوں سے سڑکیں تباہ نہیں ہوئیں بلکہ ہماری معیشت کے بخیئے ادھڑ گئے ہیں۔ ایک بھوکی قوم کی طرح ہم آپس میں ایک دوسرے کے بخیئے ادھیڑنے میں لگے ہوئے ہیں حالانکہ ہمیں مل کر امریکہ سے مطالبہ کرنا چاہئے تھا کہ یہ جو ہماری روزی روٹی چھینی ہے، اس کا نظام ٹھیک کرو۔ اب وزیر اعظم کی آواز کو ہی امریکہ سن لے اور برابری کے تعلقات کے قیام میں دلچسپی دکھائے۔وہ سپر پاور ضرور ہے مگر پاکستان ا سکا زر خرید غلام تو نہیں، امریکہ پاکستانی قوم کی نبض پر ہاتھ رکھے تو اسے اپنی غلطیوں کاا حسا س ہو جائے گا اور اسے یہ غلطیاں درست کرنے میںتاخیر نہیں کرنی چاہئے۔امریکہ اس خطے میں گوڈے گوڈے پھنسا ہوا ہے۔ وہ افغانستان میں بیٹھ کر چین اور روس کا گھیرائو کرنا چاہتا تھا۔ آج یہ گریٹ گیم تلپٹ ہو چکی ہے اور پاکستان کی مدد سے چین نے دنیاکے تین بر اعظموں تک تجارتی رسائی حاصل کر لی ہے۔اب امریکہ کو پاکستان کی ضرورت محسوس ہوئی ہے تو اسے پاکستانی قوم کے منتخب وزیر اعظم کے بیانیئے کو سمجھنا چاہئے۔ یہ بیانیہ نہیں ہے مگر عمراںخاں اب ملک کا منتخب وزیر اعظم ہے اور فوج اس پالیسی میںان کے ساتھ ہے۔ فیصلہ امریکہ کے ہاتھ میں ہے۔