وہ رہے وضو کرتے …!
ٹرمپ نے تازہ ٹویٹ کیا جس میں پاکستان پر دہشتگردی کے الزامات کو ایک بار شدّت سے پھر دہرایا جس کے جواب میں وزیر اعظم عمران خان نے فوری جواب دیتے ہوئے ٹرمپ کو آڑے ہاتھوں لیا اور اس حوالے سے اپنا ریکارڈ درست کرنے کی تلقین کی۔ اس پر امریکہ وزارتِ خارجہ اور پینٹاگان بھی حرکت میں آ گئے اور اپنے صدرکو درست ریکارڈ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ جب سے ٹرمپ اقتدار میں آئے ہیں۔ امریکی مفادات تبدیل ہو چکے ہیں۔ عالمی امن کو دائو پر لگانے کے بعد اب امریکہ نے خود ہی اس کی بحالی کی ٹھیکیداری بھی اپنے ذمے لے لی ہے۔ افغانستان سے جان چھڑانا ٹرمپ حکومت کا اولین ایجنڈہ ہے جس کو ٹرمپ کی موجودہ پالیسی کا حصہ سمجھ کر ہی بات کی جا سکتی ہے۔ افغان وار میں پاکستان کے کردار کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کیونکہ صرف ایک فون کال پر ہم نے اس امریکی جنگ کو اپنی جنگ قرار دے دیا تھا جو ویسے تو کئی سال سے جاری تھی۔ آپ تاریخ میں سے اپنی مرضی سے چند سال مہیا نہیں کر سکتے اور افغان وار میں تو ہمارے کئی جرنیل اور سیاسی راہنما ملوث رہے ہیں بلکہ معروف جرنیل تو اس موضوع پر لیکچر دے کر عزت کی روٹی کمانے کا دعویٰ کر رہے ہیں اور سیاسی راہنما بھی اس حوالے سے فوائد حاصل کرنے اور ڈالرز کمانے میں کسی سے پیچھے نہیں۔
عمران خان نے اگر اس ٹویٹ کا فوری جواب بذریعہ ٹویٹ دیا ہے تو اسکی بھی سیاسی وجوہات ہیں کہ اس آلودہ سیاسی جنگ میں سیاسی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے کہ انکے تمام سیاسی اہداف اپنے اپنے دور میں امریکہ کی پایسیوں کو آگے بڑھانے کیلئے ہی عام کرتے رہے اور ملک جو اس حال کو پہنچا ہے اس کی وجہ بھی غالباً یہی پالیسیاں تھیں۔اب ذرا ان کا بھی کچھ ذکر ہو جائے جو ’’وضو‘‘ کرتے رہے۔ وہ امریکی موجودہ یا سابقہ حکمران اور امریکی اتحادی ہیں جنہوں نے اپنے ترقی و دولت کا استحصال کیا اور صرف استحصال نہیں کیا بلکہ اس ’’استحصالی‘‘ کو مزید دولت کمانے کیلئے استعمال کیا۔ مغربی اتحادیوں نے اپنے تمام بم افغان سرزمین پر ٹسٹ کئے مگر زمینی سطح پر جانیں قربان کرنے یا کرانے کی ذمہ داری صرف اور صرف پاکستان پر ڈالدی۔ جن کی تعداد آج بھی سرکاری ہی سامنے آ رہی ہے جبکہ اصل تعداد ہمیشہ ان گنت ہوتی ہے۔ پاکستان کے شہریوں کو بم دھماکوں کے شہداء کا اعزاز ہوتا رہا اور سرکاری سطح پر اس کی حوصلہ افزائی بھی جاری رہی چنانچہ پاکستان کے شہداء کی تعداد دوسری مقامی جنگوں سے کافی زیادہ رہی۔ دوسرا پاکستانی نقصان پاکستانی معیشت کی زبوں حالی تھی۔ پاکستان کو جہاں شہادتوں کا ’’ثمر‘‘ ملا وہاں اس نے معیشت کی بربادی کا بھی خمیازہ بھگتا اور عالمی تنہائی کا شکار ہوا جو اس جنگ کا اس لئے بھی حاصل تھی کہ دنیا بھر میں جہاں دہشتگردی کا واقعہ ہوتا اسکے ڈانڈے افغان وار سے جا ملتے اور پھر کوئی نہ کوئی پاکستانی پاسپورٹ بھی برآمد ہو جاتا جس سے اس واقعے کے ساتھ پاکستانی وابستگی ثابت ہو جاتی۔ یہیں سے یورپ اور مغرب میں پاکستان کی بطور دہشتگرد حکومت اور سپوٹر حکومت شناخت کا عمل شروع ہوا جس نے پاکستان کو عالمی تنہائی کا تحفہ دیا جو پاکستانی معیشت کی بربادی کی اصل وجہ بنی یوں ’’وضو‘‘ کرانے والوں کی فہرست میں اضافہ ہوتا رہا اور بالآخر امریکہ نے اس گروپ کی قیادت بھی قبول کر لی کہ نئے متعین مفادات میں ایسا کرنا ضروری تھا۔ اس عمل نے پاکستان کے شہریوں ، بوڑھوں ، نوجوانوں ا ور بچوں کیلئے جہاں ایک کردار متعین کیا وہاں مغربی اور یورپی ممالک جو امریکی قیادت میں اس وقت پیش پیش ہیں وضو کرنے والوں کا کردار نبھایا۔ کوئی اور ملک ہوتا تو ان ’’خدمات‘‘ کا بھاری معاوضہ وصول کرتا مگر پاکستان نے نائن الیون کے بعد صرف ایک دھمکی آمیز فون کال پر اس جنگ کو بلامعاوضہ اپنی جنگ قرار دے دیا اور معاوضہ کی بات کرنے کی گنجائش ہی ختم کر ڈالی۔ دراصل پاکستان کا نظامِ حکومت ہی ایسا ہے فیصلہ اہل اقتدار کرتے ہیں اور ان پر آمین کہنے کی ذمہ داری عام لوگ ادا کرتے ہیں چنانچہ اس معاملے میں بھی افغان وار کو اپنی جنگ قرار دے کر ڈالرز کمانے کی پالیسی اہل اقتدار نے وضع کی اور جانیں دے کر اس کو عوام نے قبولیت بخشی۔ دونوں فریقین کا آپس میں متفق ہونا یا بات کرنا یا بات کرکے جزئیات تبدیل کرنا اس نظام میں ممکن ہی نہیں لہٰذا جس فریق کی جو ڈیوٹی تھی اس نے خوب اداکی۔ مرنے والوں نے جانیں دیکر اور ڈالرز کمانے والوں نے ڈالرز کما کر۔ عمران خان نے ’’ٹرمپ ٹویٹ‘‘ کے جواب میں امریکی صدر کی تسلی تو کردی ہے مگر اتنی اہم جنگ جس میں پوری کی پوری دنیا ہی ملوث تھی اسکے تمام مراحل کی تحقیقات ہونی لازمی ہے چنانچہ جہاں ایک اور امریکی صدارتی ٹویٹ درکار ہے۔ عمران خاں کی طرف سے بھی ایک اور ٹویٹ درکار ہے اور وہ ہے افغان وار کی صورت حال کو واضح کرنے کیلئے یو ۔ این ۔ او کی جانب سے ایک اعلیٰ سطحی کمیشن کا قیام کا مطالبہ جو افغان وار کی وجوہات سے لیکر ذمہ داروں کا تعین اور ذمہ داریوں کے تعین کی بھی تحقیق کرے اور اس حوالے سے سفارشات مرتب کر کے دنیا کے سامنے پیش کرے۔ یو ۔ این ۔ او کو پاکستان کی طرف سے امریکہ کے جاری کردہ اعداد و شمار ہی فراہم کر دئیے جائیں تو کافی ہو گا کہ اس جنگ کی وجہ سے پاکستان کو 123 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ پاکستان نے 25 ہزار جانیں پیش کیں جن کا امریکہ نے 20 ارب ڈالر معاوضہ دیا مگر یہ ضرور ہو گا کہ پتہ چل جائے گا یہ ڈالرز کس کس کو ادا ہوئے اور معیشت کا حال اس وقت سب کے سامنے ہی ہے!!